تحریر : مولانا امداد علی گھلو
سات مارچ ہمیں ایک بار پھر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی یاد دلاتا ہے، جو ملت کے لیے ایک عظیم سرمایہ تھے۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی تمام توانائیاں نوجوانوں کی فکری، نظریاتی اور عملی تربیت کے لیے وقف کر دیں۔ ان کی مقناطیسی شخصیت کے باعث نوجوانوں کی ایک پوری نسل نظریاتی بنیادوں پر تیار ہوئی، جس نے میدانِ عمل میں اتر کر ملت کی فکری، سماجی اور تنظیمی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی شخصیت کسی بھی تنظیم کے لیے ایک مثالی ماڈل تھی، جو فرد کی صلاحیت کو پہچان کر اسے بہترین انداز میں بروئے کار لانے کی مہارت رکھتے تھے۔
آج، جب ہم ان کی شہادت کے دن کو رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں یاد کر رہے ہیں، تو ایک اہم پہلو پر غور کرنا ضروری ہے۔ رمضان المبارک کا یہ مہینہ نہ صرف روحانی و معنوی تربیت کا وقت ہے بلکہ تنظیمی و فکری اِرتقا کے لیے بھی سب سے زیادہ موزوں ہوتا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اس حقیقت کو نہ صرف سمجھا بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا۔ انہوں نے نوجوانوں کے لیے تربیتی نشستوں، فکری مباحثوں، تنظیمی ورکشاپس اور شب بیداری کے ایسے نظام کو متعارف کروایا، جو ملت کے فکری مستقبل کی ضمانت تھا۔
میں خود بھی اپنی طالبعلمی کے زمانے میں نشتر میڈیکل کالج ملتان میں انہی تربیتی پروگراموں کا حصہ رہا ہوں۔ رمضان المبارک میں شب بیداری کے یہ تربیتی پروگرامز محض رسمی نشستیں نہ ہوتیں بلکہ نوجوانوں کے فکری اِرتقا، تعلیمی استحکام، تنظیمی بیداری اور عملی زندگی میں راہنمائی فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ تھیں۔ یہ پروگرامز ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتے، جہاں نوجوانوں کو اسلامی اصولوں، تنظیمی نظم و ضبط، قیادت و اطاعت کے بنیادی اصولوں اور ملت کے اجتماعی اہداف سے روشناس کرایا جاتا۔
لیکن آج کا المیہ یہ ہے کہ تنظیمی دنیا میں ان کی عدم موجودگی کا خلا پُر نہیں ہو سکا۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے بعد وہ تربیتی عمل جو اسٹوڈنٹس میں جاری تھا، بدقسمتی سے رفتہ رفتہ زوال پذیر ہو گیا۔ آج اسٹوڈنٹس تنظیموں کے پاس تربیتی پروگرامز ان کی اوّلین ترجیح نہیں رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف تربیتی عمل رُک گیا بلکہ فرد سازی کا سلسلہ بھی کمزور ہو گیا۔ جب نرسری ہی باقی نہ رہے تو فصل کیسے تیار ہوگی؟ جب پنیری نہ لگائی جائے تو کھیت ویران ہو جاتے ہیں۔ تنظیمیں محض نام سے نہیں بلکہ نظریاتی وابستگی، فکری تربیت اور عملی نظم و ضبط سے بنتی ہیں اور جب یہ بنیادیں کمزور پڑ جاتی ہیں تو تنظیمیں کھوکھلے ڈھانچے بن کر رہ جاتی ہیں۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج تنظیموں میں وہ جذبہ، وہ فکری بصیرت، وہ تربیتی نظام اور وہ نظریاتی تسلسل نظر نہیں آتا جو کسی بھی تنظیم کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے جس تنظیمی و فکری روایت کی بنیاد رکھی تھی، اسے صرف یاد کرنا کافی نہیں، بلکہ اسے زندہ رکھنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ اگر ہم واقعی شہید ڈاکٹر کے مشن کے حقیقی پیروکار ہیں تو ہمیں اسٹوڈنٹس تنظیموں میں تربیتی عمل کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا، اسے اپنی اوّلین ترجیح بنانا ہوگا اور اس مشن کو اسی جوش و خروش سے آگے بڑھانا ہوگا جس کے لیے شہید ڈاکٹر نے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔
ورنہ اگر تربیتی عمل بحال نہ ہوا، تو آنے والے وقت میں تنظیمی اور فکری زوال مزید گہرا ہو جائے گا اور وہ انقلاب، جس کے لیے شہید محمد علی نقوی نے قربانی دی، محض ایک یادگار بن کر رہ جائے گا۔
آپ کا تبصرہ