حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،یہ ایک ایسی خبر ہے جس نے اہلِ علم و دانش کے قلوب کو مغموم کر دیا ہے، آنکھوں کو اشکبار کر دیا ہے اور علمی و دینی حلقوں میں سوگ کی کیفیت طاری کر دی ہے۔ حجۃ الاسلام و المسلمین علامہ سید علی رضا نقویؒ، جو علم و عمل کا پیکر، تدریس و تبلیغ کا روشن چراغ اور ملت جعفریہ کے لیے ایک قیمتی سرمایہ تھے, مختصر علالت کے بعد ملتان کے مقامی ہسپتال میں انتقال کر گئے۔
علامہ سید علی رضا نقویؒ، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کے چچازاد بھائی، اسلامی تحریک پاکستان کے سینیئر نائب صدر علامہ سید محمد تقی نقوی کے چھوٹے بھائی تھے اور بعنوان مدرس جامعہ مخزن العلوم الجعفریہ شیعہ میانی ملتان کے فرائض انجام دے رہے تھے
مرحوم گزشتہ کئی سالوں سے شعبہ تدریس سے وابستہ تھے، مرحوم کے ہزاروں شاگردان ہیں۔اپ ایک بہترین مدرس کے ساتھ ساتھ،آپ کی علمی گہرائی اور تدریسی مہارت بے مثال تھی۔ وہ نہ صرف درس و تدریس کے اصولوں سے بخوبی واقف تھے بلکہ اپنے شاگردوں کی فکری و اخلاقی تربیت پر بھی بھرپور توجہ دیتے تھے۔ ان کی مجالس میں محض معلومات کی منتقلی نہیں ہوتی تھی بلکہ فہم و ادراک کے دروازے کھلتے تھے۔ ان کا تدریسی انداز ایسا تھا کہ طلبہ علمی مباحث میں دلچسپی لیتے، سوالات کرتے اور علمی گہرائی میں اترنے کی جستجو رکھتے تھے۔
مدیریت ایک مشکل فن ہے، جس کے لیے علم، حکمت، تدبر اور حسنِ تدبیر ضروری ہے اور علامہ سید علی رضا نقویؒ ان تمام اوصاف کے حامل تھے۔ وہ جہاں ایک جیّد عالمِ دین تھے، وہیں ایک بہترین منتظم بھی تھے۔ علمی و دینی اداروں کی ترقی اور تعلیمی نظام کے استحکام میں ان کا کردار نمایاں تھا۔ ان کی انتظامی صلاحیتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک عالمِ دین صرف منبر و محراب کا وارث ہی نہیں ہوتا بلکہ ملت کی فکری و تعلیمی رہنمائی بھی کرتا ہے۔
علامہ سید علی رضا نقویؒ کو اللہ تعالیٰ نے بیان کی غیر معمولی صلاحیت سے نوازا تھا۔ ان کا اندازِ خطابت دلنشین، مدلل اور فکری گہرائی سے بھرپور ہوتا تھا۔ ان کے خطابات میں قرآن و حدیث کی روشنی کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر کے تقاضوں پر بھی بحث ہوتی تھی۔ وہ کسی بھی موضوع پر گہرائی سے گفتگو کرتے، سامعین کو اپنی بات کی جانب متوجہ رکھتے اور علمی نکات کو عام فہم انداز میں بیان کرتے۔ ان کے خطابات میں جہاں استدلال کی قوّت ہوتی، وہیں ایک روحانی و معنوی تاثیر بھی محسوس ہوتی تھی، جو سامعین کے دلوں پر نقش چھوڑ دیتی تھی۔
علامہ سید علی رضا نقویؒ ایک مہربان استاد تھے۔ وہ اپنے شاگردوں کے لیے صرف ایک معلم نہیں، بلکہ ایک شفیق راہنما بھی تھے۔ وہ طلبہ کی علمی و فکری تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت پر بھی زور دیتے۔ ان کی مجلس میں بیٹھنے والے صرف علم ہی نہیں سیکھتے تھے، بلکہ خلوص، تقویٰ، خدمت اور انکساری کے درس بھی پاتے تھے۔ وہ شاگردوں کی صلاحیتوں کو پہچانتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور انہیں عملی میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے۔
اس موقع پر مولانا امداد علی گھلو نے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم علامہ سید علی رضا نقویؒ کی وفات بلاشبہ ملتِ جعفریہ پاکستان کے لیے ایک عظیم نقصان ہے۔ ایسے علماء روز روز پیدا نہیں ہوتے، جن کا وجود علم و عمل کا پیکر ہو، جو تدریس و تبلیغ میں یکتا ہوں، اور جو ملت کی فکری و نظریاتی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہوں۔ ان کی جدائی یقیناً ایک خلا پیدا کر گئی ہے، جسے پُر کرنا آسان نہیں ہوگا۔
علم و عمل کا یہ درخشاں چراغ بجھ گیا؛ لیکن ان کی یادیں، ان کی تعلیمات اور ان کے شاگردوں کی صورت میں ان کا علمی و فکری فیض ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ اہلِ بیتؑ میں بلند مقام عطا فرمائے اور ملتِ جعفریہ کو ایسے علماء کی کمی پورا کرنے کی توفیق دے۔
علامہ سید علی رضا نقویؒ کی رحلت محض ایک علمی شخصیت کا فقدان نہیں، بلکہ ایک فکری و روحانی تحریک کے خاموش ہوجانے کے مترادف ہے۔ وہ ان علماء میں شامل تھے جو صرف الفاظ کے ذریعے نہیں بلکہ اپنے کردار، عمل اور زندگی کے ذریعے دین کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کی سادگی، خلوص اور استقامت ان کے شاگردوں اور چاہنے والوں کے لیے ہمیشہ ایک عملی نمونہ رہے گی۔
آج جب ہم ان کی خدمات کو یاد کرتے ہیں تو یہ احساس مزید گہرا ہوجاتا ہے کہ ملت کو ایسے علماء کی ضرورت ہے جو علم کو صرف کتابوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ اسے عملی زندگی میں نافذ کرنے کا ہنر بھی جانتے ہوں۔ علامہ سید علی رضا نقویؒ کی شخصیت اسی امتزاج کا عملی نمونہ تھی، جہاں علم، تبلیغ، تدریس، اور بہترین اخلاق یکجا نظر آتے تھے۔
ان کی رحلت ایک سوال بھی چھوڑتی ہے: کیا ہم ان کے مشن، ان کے پیغام اور ان کے علمی و فکری تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے تیار ہیں؟ جو شاگرد، متعلقین اور ملت کے باشعور افراد ان سے وابستہ رہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے علمی ورثے کو ضائع نہ ہونے دیں۔ وہ دروس جو انہوں نے دیے، وہ افکار جو انہوں نے پھیلائے، وہ تنظیمی اصول جو انہوں نے اپنائے، یہ سب آئندہ نسلوں کے لیے چراغِ راہ بن سکتے ہیں، اگر ہم ان سے فیض لینے کا شعور پیدا کریں۔
آپ کا تبصرہ