حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ العظمیٰ حسین مظاہری نے کہا کہ علامہ محقق نائینی صرف نظریہ پرداز نہیں تھے بلکہ عملی میدان میں بھی ایک مجاہد فقیہ کی حیثیت سے نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ وہ نہ صرف حرمت تنباکو تحریک میں شریک تھے بلکہ مشروطہ تحریک اور بعد کے سیاسی میدانوں میں بھی عالمانہ انداز میں حاضر رہے۔
آیت اللہ مظاہری نے علامہ محقق نائینی کی یاد میں منعقدہ ایک اجلاس میں اپنے پیغام میں تین اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی:
1. علمی پہلو:
انہوں نے کہا کہ محقق نائینی نابغہ علمی تھے جنہوں نے اصفہان، سامرا اور نجف جیسے علمی مراکز میں دروس حاصل کیے اور آخرکار خود ایک عظیم استاد و مجتہد بنے۔ ان کے تربیت یافتہ شاگردوں میں آیات عظام خوئی، محسن حکیم، سید محمد ہادی میلانی، علامہ طباطبائی اور علامہ امینی جیسے مراجع اور مفکرین شامل ہیں۔ محقق نائینی کو علم اصول فقہ کا مجدد بھی قرار دیا گیا۔
2. اخلاقی و معنوی پہلو:
آیت اللہ مظاہری نے کہا کہ محقق نائینی نہ صرف ایک بلند پایہ فقیہ تھے بلکہ انتہائی پرہیزگار، عارف اور معنوی شخصیت کے مالک بھی تھے۔ انہوں نے اپنے استادان اخلاق جیسے ملا حسین قلی ہمدانی سے فیض حاصل کیا اور خود بھی اپنے شاگردوں کے لئے اخلاقی نمونہ تھے۔
3. سیاسی و اجتماعی پہلو:
انہوں نے مزید کہا کہ محقق نائینی سیاست کے میدان میں بصیرت و شجاعت کے ساتھ اترے۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب تنبیہ الامۃ و تنزیہ الملۃ استبداد کے خلاف اور ملت کے سیاسی حقوق کے دفاع میں لکھی گئی، جسے آخوند خراسانی جیسے بزرگ نے "اجلّ از تمجید" قرار دیا۔ وہ تحریک تنباکو، مشروطہ تحریک اور بعد میں استعماری طاقتوں کے خلاف قیام میں شریک رہے اور بارہا تبعید بھی جھیلنی پڑی۔
آیت اللہ مظاہری نے اپنے پیغام کے آخر میں تاکید کی کہ محقق نائینی کی سیرت موجودہ حوزات علمیہ کے لئے مشعلِ راہ ہے اور علما و طلاب کو چاہیے کہ ان کی علمی، اخلاقی اور سیاسی روش کو سامنے رکھ کر اپنا راستہ طے کریں۔









آپ کا تبصرہ