۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
علامہ امیر مختار فائزی

حوزہ/ قائد ملت کی سربراہی میں ایک مرکزی کونسل تشکیل دینے کے لئے کھلے دل کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جائیں تا کہ تمام دیندار قوتیں ایک مرکز پر مجتمع ہو سکیں۔ اور مل کر اپنے اپنے حصے کا کام کر کے قوم کی تقویت اور ترقی میں کردار ادا کرسکیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ میں مقیم ممتاز پاکستانی عالم دین حجت الاسلام والمسلمین علامہ امیر مختار فائزی نے "سانحۂ مچھ اور آگے کا لائحۂ عمل" کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سفاک دشمن نے اس دہشگردی کے لئے تین جنوری کا انتخاب کرکے جس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہمارے دکھ اور درد کا درمان بے اختیار حکومتوں اور کٹھ پتلی وزرائے اعظم کے پاس نہیں ہے۔ حکومت نون لیگ کی ہو، پیپلز پارٹی کی ہو یا تحریک انصاف کی ہو شیعوں کے خلاف دہشت گردی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

علامہ موصوف نے کہا کہ جیسے دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، بدقسمتی سے یہ آخری واقعہ بھی نہیں ہوگا۔ جب تک دہشت گردی اور اس طرح کے واقعات کے اسباب و علل موجود رہیں گے، یہ واقعات وقفے وقفے سے ہوتے رہیں گے۔

تقریبا ساری شیعہ جماعتوں اور تنظیموں کے شریک ہو جانے سے بہت فرق پڑا اور جمعہ کے دن جب ملک بھر میں احتجاج پھیل گیا تو اس سے حکومت کے ایوان لرزنے لگے۔ اگر صرف دو تین دن اس احتجاج کو تھوڑی اور شدت کے ساتھ جاری رکھا جاتا تو عمران خان غیر مشروط طور پر کوئٹہ میں بلکہ دھرنے میں حاضر ہوجاتا۔ اور اسکے ہم صفحہ بھی اسکے ساتھ حاضر ہوتے۔

لیکن حکومتی دباؤ اور اسکی پس پردہ ترغیب و ترھیب کا مقابلہ کرنا واقعی بہت مشکل چیلینج ہوتا ہے۔ پھر بھی مجموعی طور پر کم از کم تشیع بے آبرو نہیں ہوئی۔

اب جبکہ وقتی طور پر یہ مرحلہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے، ضروری ہے کہ اس ساری کاروائی کا پوری توجہ اور جامعیت سے جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس احتجاج اور دھرنے کے مثبت اور منفی پہلو کیا کیا تھے ؟ کہاں کونسی کمی رہ گئی ؟ کیسے اس کو مزید مفید اور مؤثر بنایا جاسکتا تھا ؟۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور میڈیا ہاؤسز، کے طرز عمل کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے۔ حمایت، شرکت اور کوریج کرنے والوں کو نوٹ کرنے کے علاوہ انکا شکریہ ادا کیا جائے اور جنہوں نے پہلو تہی یا کوتاہی کی ان کو بھی نوٹ کرکے ان سے دوستانہ گلہ کیا جائے اور جنہوں نے مخالفت کی انکو بھی نوٹ کرلیا جائے۔

انہی مواقع پر نیا قومی ٹیلینٹ سامنے آتا ہے۔ ملک بھر میں ان کارکنوں اور راہنماؤں کو نوٹ کیا جائے کہ جنہوں نے اس احتجاجی تحریک میں اپنی تنظیمی، تحریری، تقریری و تحریکی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ انکی حوصلہ افزائی کی جائے اور انکو  رابطے میں رکھا جائے۔ وہ قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں۔

علامہ امیر مختار فائزی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لئے کہ وہ اپنے معاہدے پر عملداری سے انحراف یا سست روی کا مظاہرہ نہ کرے اور شیعہ مسنگ پرسنز کی رہائی کے لئے تمام مرکزی جماعتوں کے باہمی اتفاق سے شھداء کے چہلم کا اعلان کیا جائے اور حکومتی بد عہدی کی صورت میں مارچ کے مہینے میں اسلام آباد میں ایک ملک گیر اجتماع کا سوچا جائے۔ اور اس momentum کو برقرار رکھا جائے۔

آخر میں اپنی پرانی تجویز کو ایک مرتبہ پھر دہراؤں گا کہ مذہب و ملت کے وسیع تر مفاد کے لئے تمام مرکزی جماعتوں اور تنظیموں کے درمیان مشاورت اور تشریک مساعی کے لئے قائد ملت کی سربراہی میں ایک سپریم / مرکزی کونسل تشکیل دینے کے لئے کھلے دل کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جائیں تا کہ تمام دیندار قوتیں ایک مرکز پر مجتمع ہو سکیں۔ اور مل کر اپنے اپنے حصے کا کام کر کے قوم کی تقویت اور ترقی میں کردار ادا کرسکیں۔

اگر ایسا ہو تو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی   علماء کرام اور مخیر مومنین عظام بھی بھرپور تعاون کے لئے تیار ہوں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .