تحریر: سعیدہ مریم ماجان
حوزہ نیوز ایجنسی । قانون خلقت میں خدا نے انسان کو کمال کے منازل طے کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اور کمال کے لیے مرد وعورت کے درمیان ہم آہنگی شرط ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کی تکمیل کے لیے حضرت حوا کو خلق فرمانے سے لے کر تاریخ کےافق پرمختلف تاریخ ساز خواتین کے تذکرے ملتے ہیں۔ جہاں ایک مرد کامیاب ہے۔تواس کے پیچھے ایک خاتون کا کردار نظر آتا ہے خواہ وہ ماں کی شکل میں ہو یا بیٹی کے روپ میں ، بہن کی صورت میں ہو یا بیوی کے روپ میں ۔
تاریخ کے صفحات میں کبھی یہ عورت حضرت حاجرہ کی شکل میں خدا کے حکم کی تعمیل کی خاطر سرزمین عرب کی بے آب و گیاہ وادی میں سکوت اور خوف سے دوستی کرتی نظر آتی ہے ، تو کبھی یہ شیر خوار ماں خدا سے امید لے کر صفا و مروہ کے سنگلاخ چٹانوں پر یکے بعد دیگرے دوڑتی دکھائی دیتی ہے۔ کبھی یہ عورت حضرت آسیہ کی روپ میں تاریخ کے پلید ترین "انا ربکم الاعلی" کا دعویٰ کرنے والے شخص کے عقد میں رہ کر نہ صرف ایک نبی کی پروش کرتی ہے بلکہ نبی (ع) کی بیعت اور حمایت میں ایک ماں کی مانند اپنے وجود کی قربانی دیتی نظر آتی ہے ، تو کبھی حضرت مریم کی صورت میں خدا کے دستور کے پاسداری کرتے ہوئے دنیا کے جاہل و سفاک ترین قوم یہود کا مقابلہ کرتی ہوئی آیت خدا حضرت عیسیٰ مسیح (ع )کو جنم اور تحفظ دیتی نظر آتی ہے۔
عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں
اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں
عرب کی بدتہذیب اور جاہلیت کا خاتمہ بھی ایک خاتون کے مقدس قدم کے مبارک اثر سے مٹ جاتا ہے ، جس کا نام اللّٰہ نے کوثر یعنی ناختم ہونے والا سرمایہ رکھ کر عورت کی قدروقیمت اور شناخت کی بیج اپنے محبوب رسول خاتم رسالت مآب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے باغ میں بو دیا۔
صدر اسلام ہی سے جہاں مردوں نے اپنی بہادری و جوانمردی کا ثبوت دیا وہیں نڈر و دلیر خواتین نے بھی ہر میدان میں شجاعت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی ابتدائی جنگ ہو یا دور امامت، ہر معرکے میں خیموں کی حفاظت کی ذمہ داری ہو یا پھر زخمیوں کو میدان جنگ سے اٹھا لانے والی بامشقت فرض کی ادائیگی، زخمیوں کے زخموں پرمرہم پٹی کرنا ہو یا پھر پیاسوں کو پانی پلانا. ایسے بہت سے کام خواتین نے دیدہ دلیری سے انجام دی ہیں۔
تاریخ اسلام ،خواتین کی بے پناہ قربانیوں اور بےلوث خدمات کا ذکر کئے بغیر نا مکمل رہتی ہے اسلامی تاریخ کے اوراق تاریخ ساز خواتین کے بےشمار خدمات اور قربانیوں سے بھری پڑی ہیں۔
نازوں سے پلی عیش عشرت کی عادی عرب کی سب سے مالدار خاتون نے نہ صرف سب سے پہلے اسلام قبول کیا، بلکہ اپنی پوری زندگی جان و مال دین اسلام کے لیے وقف کر دیا، یہاں تک کہ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)آپ کی اسلام کے لئے دی گئی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ: ترویج اسلام اور پرچار میں کسی مال نے یوں فائدہ نہیں پہنچایا جس طرح خدیجہ کے مال و دولت نے پہنچایا۔
ایک اور مقام پر آپ (ص) ام المومنین حضرت خدیجہ کی اسلام کی بے لوث خدمات، ایثار اور قربانیوں کی قدردانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: دین اسلام دو چیزوں کے بغیر کبھی مظبوط و توانا نھیں ہوسکتا تھا، ایک خدیجہ کی مال و دولت دوسرا علی کی تلوار. نہ صرف یہہی بلکہ اسلام کی خاطر تین سال شعب ابی طالب میں محصور رہ کر بےحد اذیتیں، تکالیف اور مصائب برداشت کئے. دوسری طرف سیدہ فاطمہ زہرا (س) نے عظیم باپ کی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے بچپن سے ہی قریش کے ظلم و ستم کا بڑی جرات مندی، شجاعت، ہمت و متانت سے سامنا کیا اور "ام ابیھا" کا لقب حاصل کیا۔
آپ ولایت کی حامی و ناصرہ بن کر اپنے والد گرامی کی امت کے ہاتھوں زخم کھاتی نظر آئیں اور علی علیہ السلام کی جانب اٹھنے والے ہاتھوں کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہوگئیں اور "محافظہ امامت" کا خطاب حاصل کیا۔
امام راحل اما خمینی رہ حضرت فاطمہ کی عقیدت میں فرماتے ہیں:
"وہ تمام پہلو اور گوشے جو ایک عورت کے لئے تصور کئے جا سکتے ہیں ، وہ کمالات جو ایک انسان کے لئے متصور ہو سکتے ہیں سب کے سب جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے وجود میں جلوہ افروز ہیں ، آپ ایک معمولی خاتون نہ تھیں بلکہ آپ کا وجود ایک عورت کی مکمل حقیقت کا ترجمان تھا ،آپ کا وجود انسان کی مکمل حقیقت سے عبارت تھا آپ ایسے ملکوتی وجود کی حامل تھیں جو دنیا میں انسان کی صورت ڈھل کر سامنے آیا ، ایسا الہی و جبروتی موجود جو ایک عورت کی صورت میں ڈھلا ایک ایسی عورت جس کے اندر انبیاء کی تمام خصوصیتیں موجود تھیں وہ ذات جو مرد ہوتی تو نبی ہوتی اگر مرد ہوتی تو رسول اللہ کی جگہ ہوتی ۔"
ایک طرف اسلام کی نہایت نڈر و دلیر خاتون حضرت صفیہ بے خوف خطر ہو کر میدان جنگ کے معرکوں سے زخمیوں کو باہر لاتیں اوران کی مرہم پٹی کرتی جلوہ نما ہوتی ہیں، تو دوسری طرف فضہ جیسی محبت اہل بیت سے سرشار خاتون عشق خدا اور محبت اہل بیت میں دیوانہ ہو کر صاحب علم ہونے کے باوجود در زہرا کی کنیزی کو گلے لگاتی ہے اور اسی کو بادشاہت مان لیتی ہے اور ہر میدان عمل میں حضرت فاطمہ زہرا(س)کے شانہ بہ شانہ مصروف عمل دیکھائی دیتی ہے.
کہیں ہمت و حوصلے کی علمبردار ام وہاب سے اپنے نوجوان بیٹے کو شہادت کے لیے میدان جنگ میں روانہ کرنے کا تاریخ ساز درس ملتا ہے۔ تو کہیں کربلا کے میدان میں بی بی زینب(س) کی آنکھوں کے سامنے بھائیوں، بھتیجوں اور بیٹوں کی شہادت کی دردناک داستان ملتی ہے، تو کہیں آپ کا وہ رونگٹے کھڑا کر دینے والا تاریخی خطبہ پڑھنے کو جو آپ نے یزید کے دربار میں کھڑی ہو کر للکارنے کے لیے کہا تھا۔
اگر زینب کے شیوہ حیات میں ان کی معنوی کمالات دیکھ لے حیران و ششدر رہ جاتی ہے ، چاہے اپنی ماں کے آغوش میں ایک تین چار ماہ کی معصوم ہوں یا کوفہ میں مولائے کائنات علیہ السلام کی بیٹی کی حیثیت سے خواتین کے لیے علم فیض بخشنے والی عالمہ ہوں یا سرزمین کرب و بلا کے دشت صحرا میں راہ عشق میں فدا ہونے والے فاتح فافلہ عشاق کے سردار کی بہن اور مدافعہ ولایت و امامت کی حیثیت سےہوں یہ تاریخ کے مثالی خاتون تھی جنہوں نے ایک موقع پر کئی پہلوؤں سے کردار نبھا کر ایک عظیم سرنوشت تاریخ بشری میں نقش کر دی اور عالمی ثبوت ریکارڈ کردیا کہ ایک عورت ایک ہی زمانے میں رہ کر ہر زمانے کی حاکمیت سنھبال سکتی ہے۔ حضرت زینب نے ہر زمانے کی آمریت و سامراجیت کو بے نقاب کر کے ان کو اپنے حقیقت دکھا دی۔
امام خمینی رہ اس عظیم خاتون کی سرگرمیوں کے مختلف جلووں کو آج کے اسلامی معاشرے کے حالات کے ساتھ مطابقت کرتے ہیں ۔ آپ ( رہ )معتقد ہیں کہ ایرانی گمنام ،شجاع اور شیر دل اور جری تاریخ ساز خواتین کی تحریک، قیام اور جابرانہ نظام کے مقابلہ کرنے میں حضرت زینب سلام علیہا نمونہ عمل تھی جو دشمن قوتوں کے خلاف قیام کا سبب بنی اور اس کے نتیجے میں ظالمانہ حکومت کو شکست کا سامنا ہوا۔
امام (رہ) "عزم،", "جرات" "جد وجہد" عمدہ خصوصیات کو بیان کرتے ہیں جو ظالمانہ حکومت کے خلاف سیدہ زینب سلام علیہا میں پائی جاتی تھیں اور ایرانی خواتین کی تحریک کی کامیابی کو انہی تین خصوصیات کی پیروی میں قرار دیتے ہیں ۔
امام خمینی وہ نڈر رہنما و رہبر کبیر انقلاب ہےجنہوں نے خواتین کو حضرت سیدہ معصومہ زینب (س) کی خوبصورت زندگی کی تجزیانہ شرح پیش کر کے عورتوں کو ان کی عظمت رفتہ اور حقیقت کی پہچان کرا دی ۔
امام ( رہ) فرماتے ہیں کہ : خواتین نے انقلاب کے عروج و زوال میں ایسی مسلح افواج کا مقابلہ کیا جسے دنیا کی استکباری طاقتوں منجملہ امریکہ،برطانیہ، اور اسرائیل جیسوں کی حمایت حاصل تھی ایسی حالت میں انہوں نے نعرہ بلند کیا اور بے شمار قربانیاں دیں اور خاک و خون میں غلطاں ہو کر اس تحریک کو کامیاب بنایا۔پس یہ ایک عظیم اور بے دریغ ثبوت ہے عورتوں کے قوت بازو کا کہ کسی بھی قوم کی خواتین بیدار ہو جائے اور اپنے مقام اور حیثیت کی شناخت کرے وہ قوم خواہ ایک پست اور زوال پذیر قوم ہی کیوں نہ ہو عروج کی منزلیں طے کر سکتی ہیں ۔
پس جب تک ہماری سانسیں چل رہی ہیں ہمیں چاہئےکہ شرم حیا کی چادر کو اوڑھے رکھیں تاکہ ہماری عفت و پاکدمنی، شجاعت و بہادری، بلند ہمت و حوصلہ، پڑوان چڑھتی رہے۔اور حجاب وحیا کے ساتھ میدان عمل کے ساتھ اپنا کردار اداکریں۔تاکہ فاطمی وزینبی اسوہ ہر دور میں زندہ وپائندہ رہے۔