۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
آل انڈیا ملی کونسل بہار

ہندوستان میں اقلیتوں کے مسائل اور اس کا حل کے عنوان سے آل انڈیا ملی کونسل کی آن لائن ویب نار میں دانشوروں کا اظہار خیال۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عالمی یوم اقلیتی حقوق کے موقع پر آل انڈیا ملی کونسل بہار نے اورکونسل کے نائب قومی صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی کی صدارت میں آن لائن ویب نار کاانعقاد کیا جس کا عنوان 'ہندوستان میں اقلیتوں کے مسائل اور اس کا حل'تھا،اس آن لائن ویب نار میں گجرات،دہلی،بہار اورجھاکھنڈ کے علاوہ مختلف ریاستوں سے اہل علم اوردانشوروں نے شرکت کی،اوراپنے خیالات کا اظہارکیا،یہ آن لائن نشست زوم ایپ پر شام 6/بجے سے پونے 8تک جاری رہی اس نشست کا آغاز ملی کونسل بہار کے جنرل سکریٹری مولانا محمدعالم قاسمی صاحب کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔
اس موقع پر اپنی صدارتی خطاب میں آل انڈیاملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی نے فرمایا کہ دستورہندمیں دئے گئے اقلیتوں کے حقوق اوران کے جانی،مالی،اقتصادی،مذہبی اورتعلیمی مسائل سے ہم سب واقف ہیں،ہمارے مسائل زیادہ تر حکومتوں کی نارواپالیسوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں خواہ انگریزوں کا عہد ہویا پچھلے ستر بہترسالوں کی بات کی جائے جتنے بھی مسائل پیدا ہوئے اس میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا ہے،کچھ پارٹیاں اورتنظیمیں خفیہ طریقے سے اقلیتوں کے خلاف ریشہ دوانی کرتی رہتی ہیں اورکچھ کھلے عام،اس لئے ضرورت ہے کہ اکثریتی طبقہ سے تعلقات اورمیل جول کوبہترکیاجائے اورانہیں اپنے حقوق سے باخبر کیا جائے،اسی طرح تمام ملی تنظیموں کے درمیان مضبوط اورمستحکم رشتہ ہونا چاہئے؛تاکہ ظلم کے خلاف اورحقوق کی بحالی کے لیے مضبوط آوازاٹھائی جاسکے،میراتجربہ ہے کہ اگر حکومت کے سامنے مطالبات پوری قوت سے رکھے جائیں تو یہ ضرورپورے ہوتے ہیں،اس سلسلے ہمارے علماء،دانشوروں اورصحافیوں اورسماجی کارکنوں کو کھل کر میدان میں آنا ہوگا،انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کی بھی ضروت ہے کہ ملک کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ مل کر مشترکہ محاذ بنایا جائے اورتمام اقلیتوں کے مسائل اس پلیٹ فارم سے پوری مضبوطی سے اٹھایاجائے،اگر ایسا ہوا تو امید ہے کہ یہ ایک مؤثرپلیٹ فارم ہوگا، اورانہوں نے مزیدکہاکہ سیرت نبوی کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم اکثریتی طبقے سے اپنے تعلقات استوارکریں۔مسلمانوں کو چاہئے کہ جانی ومالی نقصان کی حفاظت اوردیگر حقوق کے حصول کے لیے اپنی کوشش ومحنت کو تیز کریں۔

جب کہ مولانا محمد عالم قاسمی نے کہا کہ اقلیت اوراکثریت میں ہونا کوئی اہم بات نہیں ہے،بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقلیتیں صحیح نہج پر کام کریں،کیوں کہ بہت دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ چھوٹی بھوٹی جماعیتں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پرغالب آجاتی ہے جس ذکر خود اللہ نے قرآن کریم کیا ہے۔مشہور سماجی کارکن اورصحافی جناب شاہنوازبدرقاسمی نے کہا کہ بد قسمتی سے ہماری موجودہ بہارحکومت نے اقلیتی طبقے کا کوئی وزیر نہیں ہے گوکہ وزارت اقلیتی فلاح ضرور ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ طویل منصوبہ بندی کے ساتھ اقلیتوں کے مسائل ریاستی،قومی اوربلاک کی سطح پر حل کرانے کی کوشش کی جائے،اس موقع پر مشہور صحافی اورمصنف خورشید انوار عارفی نے کہا کہ اس ملک میں جمہوریت ہے،اس ملک کا ہر شہری آزاد ہے یہاں کی اقلیتوں کو بھی اپنی زبان،کلچراورمذہب کی تبلیغ اورتعلیمی ادارے کھولنے کا مکمل حق حاصل ہے،ملک کے موجودہ حالات کے تناظرمیں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تعلیمی ترقی پر توجہ دیں اوردستور ہند میں دئے گئے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہیں،دستور ہند بہت اہمیت کاحامل ہے۔مشہور عالم دین مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی جو ان دنوں بنگلور میں تشریف رکھتے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ اس ملک کی بقاء اس ملک کے دستورمیں مضمر ہے،جس دن اس ملک کا آئین ختم ہوجائے گا،اس دن اس ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی؛اس لیے ضروری ہے کہ دستور کے خلاف ہو رہی کوششوں کو روکنے کے لیے ملک کی تمام اقلیتیں مل کر جد جہد کریں۔کیوں کہ اس ملک کا دستوربڑا خوبصورت ہے اور اس نے ہر شہری کو برابرکا حق عطاکیے ہیں،اس کے لیے مختصرمدتی وطول مدتی منصوبہ بناکر کام کیا جائے۔گجرات کے مشہور عالم دین مولانا اقبال احمد پٹنی نے کہا کہ ہمارا دستورپوری دنیا میں ممتاز مقام رکھتا ہے جس نے تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیے گئے ہیں اوراسی دستور نے اس ملک کو مختلف مذاہب کا سنگم بنائے رکھا ہے،لہٰذ اس دستور کے مطابق کام کرانا چاہئے اور تعلیمی طورپرمسلمانوں کوآگے بڑھنا چاہیے۔

جمعیت علماء بہار کے ناظم اعلیٰ جناب حسن احمد قادری نے کہا کہ اقلیتوں کے مسائل اسی وقت حل ہو سکتے ہیں جب کہ ہم اس کے لیے ہر سطح پر مشترکہ کوشش کریں،غیرملسلموں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کیاجائے اورمنظم کوشش کی جائے۔ ڈاکٹرمفتی عبید اللہ قاسمی دہلی نے کہاکہ ملک میں اقلیتوں پرمظالم بڑھتے جارہے ہیں،ان کاسیاسی اور سماجی طورپر استحصال ہوتا ہے،اس لئے ضروری ہے کہ مسلم اقلیت سیاسی طورپر مضبوط ہو،سیاسی طاقت اقلیتوں کے مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے۔آن لائن ویب نارکی نظامت کرتے ہوئے اپنی ابتدائی گفتگومیں آل انڈیا ملی کونسل بہار کے کاگزارجنرل سکریٹری محمد نافع عارفی نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کی آواز سب سے پہلے 1814ء میں آسٹیریا کی راجدھانی ویانہ میں ہونے والے کانفرنس کے بعد اٹھی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ جرمن میں آباد یہودیوں کے حقوق تسلیم کئے جائیں پھر1856ء میں پیرس میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں خلافت عثمانیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ اس کے زیر اقتدار ممالک میں آباد یہودیوں اورعیسائیوں کو خاص حقوق دئے جائیں اوران اقلیتوں کو قانونی تحفط فراہم کیاجائے اسی طرح1878ء میں برلن سے یہ مطالبہ زوروشور سے اتھا کہ رومانیہ،سربیااوربلغاریہ میں آباد یہوداقلیتوں کو قانونی تحفظ اور قانونی طور پر حقوق عطا کئے جائیں اورپھر دھیرے دھیرے مختلف حلقوں سے یہ آواز بلند ہونے لگی،یورپین یونین اوردیگر تنظیموں نے بھی اقلیتوں کے حقوق کی آوازیں بلند کیں،گویا یہ ایک خاص اصطلاح 1814 سے پہلے ناپیدتھی۔ اسی اصطلاح کے بطن سے حقوق اطفال، عورتوں کے حقوق،انسانی حقوق کی اصطلاحوں نے جنم لیا،اب اقلیتوں کے حقوق بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ قانون ہے مختلف ممالک نے اپنے اپنے ملکوں میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے قانون بنائے ہیں،اقلیتیوں کے حقوق کو نسلی،مذہبی اورلسانی اقلیتوں پر کے لیے ہیں،یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کا لازمی جز ہے،بچوں کے حقوق،خواتین کے حقوق اورمہاجرین کی ہی طرح اقلیتوں کے حقوق کا ایک فریم ورک بنایا گیا ہے تاکہ معاشرے میں اسے جائز حق دلایا جا سکے،اقوام متحدہ کاآرٹیکل 27/قومی،نسلی،مذہبی اورلسانی اقلیتوں سے متعلق حقوق کا اعلامیہ ہے جس میں اقلیتوں کے تئیں اقوام متحدہ نے دنیا کے تمام ممالک سے اپیل کی ہے۔

اس ویب نارمیں جماعت اسلامی بہار کے سکریٹری جناب ضیاء القمر صاحب،جناب وسیم احمددہلی،مولانا رضاء اللہ صاحب وغیرہ میں شرکت کی۔

آل انڈیا ملی کونسل نے پورے ملک کی اقلیتوں سے خاص طورسے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ 'عالمی یوم حقوق اقلیت'کے موقع پرخصوصی مجلسیں منعقد کریں اور اپنی تجاویزآئینی ا داروں کو بھیجیں۔

اس موقع پر ائمہ کرام کے نام مکتوب روانہ کیا تھا نیز اخبارکے ذریعے بھی ائمہ مساجد سے بھی اپیل کی گئی تھی کہ اس جمعہ میں اپنی تقریر کا موضوع 'ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق'کو بنائیں الحمد اللہ اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا،اور مختلف مساجد میں اس موضوع پر تقریریں ہوئیں۔خاص طوپرپٹنہ کے دریاپوراور فقیروارہ کی مسجد،داناپور کے شگونہ اور پھلواری شریف کی مساجد کی تقریریں قابل ذکر ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .