حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ١١ دسمبر کو شہر قم کی تاریخی درسگاہ مدرسہ حجتیہ کی مسجد میں محبان ام الائمہ علیہم السلام تعلیمی وفلاحی ٹرسٹ اور انجمن علمی پژوہشی مہدویت کی جانب سے شام ٣ بجے ایک جلسہ تعزیت اور مجلس عزا کا اہتمام کیا گیا۔پروگرام کا آغاز وقت کی پابندی کے ساتھ ٹھیک ٣ بجے ہوگیا ۔
شہر قم کے مشہور قاری حجت الاسلام سید محمد جواد رضوی نے کلام اللہ المجید کی تلاوت سے پروگرام کا آغاز کیا۔
نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوے حجت الاسلام سید عاصم باقری نے اپنے خاص ہنر مندانہ لب و لہجہ میں تلاوت کے بعد حجت الاسلام سید عابد رضا نوشاد کو انقلابی مسدس پڑھنے کی دعوت دی ۔موصوف کے بعد حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی کو تقریر کی دعوت دی گئی تو موصوف نے دونوں عبقری شخصیات پر اپنے تأثرات پیش کرتے ہوے کہا کہ دونوں شخصیات علم ودانش کی پرخلوص خدمت گزار تھیں ۔ڈاکٹر کلب صادق صاحب کی موجود تقریروں سے ان کا درد بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بغیر کسی خوف وخطر کے اپنا مشن جاری رکھا ۔ اسی طرح ڈاکٹر فخری زادہ بھی جب تک باحیات رہے انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے قدم اٹھاتے رہے۔
نجیب الحسن صاحب کی تقریر کے بعد مشہور شاعر حجت الاسلام ضیغم بارہ بنکوی کو دعوت دی گئی تو انہوں نے اپنے تازہ کلا م میں جناب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوے کہا: اپنے عمل سے کر دیا ثابت جناب نے پابند وقت جو ہے وہی کامیاب ہے۔
اجداد ماسبق کی بزرگی ہو کیا بیاں
جنت مآب ہے کوئی غفرانمآب ہے
ضیغم بارہ بنکوی کے بعد ناظم جلسہ نے محبان ام الائمہ کے صدر حجت الاسلام سید مراد رضا رضوی کوتقریر کی دعوت دی ۔تقریر کے دوران رضوی صاحب نے نام نہاد عالم اور حقیقی عالم کی پہچان بتاتے ہوے کہا کہ نام نہاد عالم متکبر اورآداب و القاب کا بھوکا ہوتا ہے لیکن حقیقی عالم پیکر انکسار ہونے کے ساتھ ساتھ کوہ وقار ہوتا ہے ،ڈاکٹر کلب صادق صاحب اور شہید ڈاکٹر فخری زادہ دونوں کی زندگی کا مشترک پہلویہی ہے کہ دونوں حقیقی عالم تھے کیونکہ دونوں پیکر انکسار ہونے کے ساتھ ساتھ کوہ وقار بھی تھے۔صدر ادارہ محبان ام الائمہ کے بعد قم مقدسہ کے کہنہ مشق شاعر مولانا محسن جونپوری نے بہترین منقبت سے سامعین کو محظوظ کیا اور پھر بزرگ عالم حجت الاسلام والمسلمین جناب احتشام عباس جونپوری نے عنان سخن سنبھالتے ہوے دونوں شخصیات پر روشنی ڈالتے ہوے کہا کہ ڈاکٹر کلب صادق صاحب کی شخصیت پر یہاں ایران میں بھی اور ہندوستان میں بھی ریسرچ اسکالرس کو اپنے علمی رسالے کا عنوان کلب صاق صاحب کی شخصیت کو قرار دینا چاہیے ۔
آخر میں حوزہ ٔعلمیہ کے مایہ ناز استاد حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر احمد عابدی نے مجلس عزا کو خطاب کرتے ہوے فرمایا کہ ڈاکٹر کلب صادق طاب ثراہ ہوں یا شہید ڈاکٹر فخری زادہ دونوں ہی عالم دین تھے ؛ایک کلام الٰہی کا عالم تو دوسرا فعل الٰہی کا عالم تھا۔امام جعفر صادق کی حدیث پر روشنی ڈالتے ہوے استاد حوزہ نے کہا کہ جو بھی خدا کے لیے تعلیم حاصل کرے ،خدا کے لیے اس علم پر عمل کرے اور خدا ہی کے لیے اس علم کو دوسروں کو سکھاے تو وہ ملکوتِ آسمان میں عظمتوں کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔دونوں بزرگ ہستیوں کی خصوصیصیت یہی تھی کہ انہوں نے خدا کے لیے علم حاصل کیا تھااور اس علم پر عمل پیرا تھے اور اپنے علم سے دوسروں کو خدا کے لیے فائدہ پہنچایا ،ڈاکٹر کلب صادق نے غریبوں اور ناداروں کی علمی کفالت کی ہے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے،ڈاکٹر فخری زادہ نے اس کورونا وبا میں اپنی تحقیق سے انسانیت کی جان بچائی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ علم، علم دین ہے جو خدا کے لیے حاصل کیا جائے اور خدا کے لیے دوسروں کو سکھایا جائے ،یہ الگ بات ہے کہ علوم الٰہیہ سے افضل کوئی دوسرا علم نہیں ہوسکتا لیکن جو بھی علم خدا کے لیے حاصل کیا جائے وہ علم دین ہے ایک فیزکس اور سائنس وٹکنولوجی کا عالم درحقیقت فعلِ الٰہی پر تحقیق کرتا ہے اور علوم الٰہیہ کا طالب علم کلام الٰہی و ذات الٰہی کی تحقیق میں لگا رہتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے لیے علم حاصل کرکے اس پر عمل کرتے ہیں اور ان کے یہاں نام و نمود ،شہرت اور آداب و القاب حاصل کرنے کی تڑپ نہیں ہوتی وہی لوگ دوسروں کے لیے فائدے مند ہوتے ہیں ۔امام خمینیاور علامہ عسکری کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوے استاد عابدی نے فرمایا کہ امام خمینی نے ایک کتاب لکھی جس پر ان کا نام تک نہیں تھا جب چھاپنے والے نے نام لکھنے کی اجازت طلب کی تو انکار کردیا ۔جب اس نے کہا کہ اگر کوئی کتاب پر اعتراض کرنا چاہے تو کس پر اعتراض کرے گا؟ تب صرف روح اللہ الموسوی لکھنے کی اجازت دی ۔ جب توضیح المسائل کی جلد پر'' آیت اللہ العظمیٰ اور زعیم حوزہ ہاے علمیہ'' لکھا گیا تو جب تک ان آداب والقاب کو ہٹوا نہیں دیا کتاب عام کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ علامہ عسکری کی ہر کتاب پر یہ لکھا رہتا ہے کہ حق اشاعت محفوظ نہیں ہے۔ڈاکٹر کلب صادق اور ڈاکٹر فخری زادہ بھی انہی اوصاف کے حامل تھے۔
حوزہ ودانشگاہ کے مشہور استاد نے ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایاکہ تعداد کے حوالہ سے شیعہ دنیا میں سب سے کم اور اقلیت میں ہیں لیکن علم ،منطق،فلسفہ اور استدلال کے حوالہ سے علماے شیعہ دنیا بھر میں سب سے اول ہیں ۔عیسائیوں کے پوپ عالم ہوا کرتے ہیں ؛لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان سے بڑا کوئی ان کے یہاں یا دنیا بھر میں عالم نہیں ہے لیکن شیعوں کے علمادنیاے علم واستدلال میں یکتاے روز گار ہوا کرتے ہیں ۔
آخر میں استاد نے آیت اللہ یزدی کی شخصیت پر بھی روشنی ڈالتے ہوے فرمایا کہ یہ بات میں بہت جرأت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آیت اللہ یزدی کا ترجمۂ قرآن موجودہ بہت سارے تراجم سے بہت بہتر ہے ۔وہ چیف جسٹس تھے ،رفاہ کے سارے سامان ان کے لیے مہیا تھے، ایک عیش وعشرت کی زندگی بسر کرنا ان کے لیے معمولی سی بات تھی ؛لیکن مجلس خبرگان رہبری کا ایک نمائندہ جو عالم دین نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے شعبے سے متعلق ہے اس کا بیان ہے کہ آیت اللہ یزدی کی گھریلو زندگی میں نے قریب سے دیکھی ہے؛ نہایت معمولی اور زاہدانہ زندگی تھی ۔علماے شیعہ کا یہی افتخار ہے کہ وہ شہرت سے دور زاہدانہ زندگی کو ترجیح دیتے ہیں ۔
ڈاکٹر کلب صادق کی شخصیت پر علمی رسالوں کی تدوین کی ضرورت: حجت الاسلام احتشام عباس زیدی
دونوں شخصیات علم و دانش کی پرخلوص خدمت گذار تھیں:حجت الاسلام نجیب الحسن زیدی
ڈاکٹر کلب صادق اور ڈاکٹر فخری زادہ کا مشترک پہلو،پیکر انکسار کوہ وقار:حجت الاسلام مراد رضا رضوی
روز جمعہ کی مناسبت سے استاد نے ''الروضة المختارہ ''میں موجود ابن ابی الحدید معتزلی کے ان اشعار کو مصائب کے عنوان سے پیش کیا جس کی چند ابیات امیر المومنیں کے حرم میں بھی کندہ ہیں۔ابن ابی الحدید کہتا ہے کہ ان گھوڑوں کی نسلیں منقطع ہوجائیں جو اُن نجیب اور یکتاے روزگار اجساد کو اپنے سموں سے کچل رہے تھے۔اے امام زمانہ میں سنی ہوں لیکن آل ابی الحدید کے جوان اپنی تلواریں صیقل کیے ہیں تاکہ آپ کے ہمراہ دشمنان حسین سے جنگ کریں ۔وہ کیسے پاکیزہ اجساد تھے جن پر یہ گھوڑے دوڑاے جارہے تھے ۔گریہ وزاری کی فضا میں مجلس تمام ہوئی اور سورہ فاتحہ کے بعد اذان مغرب کے ہمراہ نمناک آنکھوں کے ساتھ جلسہ تعزیت اختتام پذیر ہوا۔