حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ/ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایگزیکیٹیو رکن اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کنوینر ظفریاب جیلانی نے کہا کہ ایودھیا کے علاقہ دھانی پور میں مجوزہ مسجد وقف قانون کے علاوہ شریعت کے مغائر ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کیلئے تین دن قبل ہی ایک بلیو پرنٹ جاری کیا گیا تھا۔
اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ظفریاب جیلانی نے کہا کہ مجوزہ مسجد نہ صرف وقف قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ شریعت کے بھی مغائر ہے کیونکہ مساجد کی اراضی کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ مسجد کی تعمیر وقف قانون کے خلاف ہوگی اور وقف قانون ہی شریعت کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایگزیکیٹیو کمیٹی کا اجلاس 13 اکٹوبر کو منعقد ہوا جس میں اس مسئلہ کو مجلس اتحادالمسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اٹھایا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن عاملہ ایس کیو آر الیاس نے کہا کہ اجلاس میں شریک تمام ارکان کا خیال یہ تھا کہ مسجد کی اراضی کی تبدیلی کو وقف قانون کے تحت اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہم نے پہلے ہی بابری مسجد کے مقام کے بجائے کسی اور مقام پر مسجد کیلئے اراضی دینے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اس اراضی کو قبول نہیں کیا تھا۔ جیسا ہمیں نے سپریم کورٹ میں بابری مسجد اراضی ملکیت مقدمہ میں ناکامی ہوئی ہے، ہمیں مسجد کیلئے کسی اور جگہ اراضی کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ بابری مسجد کسی مندر کو گرا کر تعمیر نہیں کی گئی ہے۔ سنی سنٹرل وقف بورڈ حکومت کے دباؤ میں کام کررہا ہے۔ مسلمانوں نے لکھنؤ کے علاقہ دھانی پور میں بابری مسجد کی جگہ کے متبادل میں دی گئی اراضی کو مسترد کردیا ہے۔ مسجد ٹرسٹ کو سنی سنٹرل وقف بورڈ نے تشکیل دیا ہے۔ یہ ٹرسٹ صرف مسجد کی تعمیر کیلئے علامتی طور پر تشکیل دیا گیا۔
اسی دوران ایودھیا لفظی ٹرسٹ کے سکریٹری اطہر حسین منے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس مسجد کیلئے جو اراضی دی گئی ہے وہ غیرقانونی نہیں ہوسکتی۔ مختلف افراد اپنے ذاتی طریقوں سے شریعت کو محدود رکھے ہوئے ہیں۔ مساجد وہ مقام ہے جہاں پر نماز ادا کی جاتی ہے۔ اگر ہم ایک مسجد تعمیر کرتے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے۔
بابری مسجد کے متبادل میں دی گئی اراضی پر نئی مسجد کی تعمیر کا آئندہ سال 26 جنوری سے آغاز ہونے کی توقع ہے۔