۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
تعلیمی و تمدنی حقوق دستور ہند کے آرٹیکل 29 اور 30 کے تحت یک روزہ سیمینار کا انعقاد

حوزہ/ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سماج میں امن و یکجہتی و بھائی چارگی اسی وقت برقرار رکھی جاسکتی ہے جب ہم سماج کے ہر طبقہ کو اپنے ہمراہ لے کر چلنے کی کوشش کریں ۔ اس کے لیے اکثریتی طبقہ کو لازماًاقلیتی طبقہ کا احترام کرنااور اقلیتی طبقہ کو اکثریتی طبقہ کا احترام کرنا ضروری ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حیدرآباد/ یک روزہ سیمینار بعنوان تعلیمی و تمدنی حقوق،ہندوستائی آئین کے آرٹیکل 29 اور 30 کے تحت20 نومبرکوویسٹرن بلاک آڈیٹوریم ، سالارجنگ میوزیم میں منعقد ہوا۔یہ پروگرام جوڈیشل کوئیسٹ پندرہ روزہ انگلش میگزین کے بانی و ایڈیٹر سید علی طاہر عابدی کی جانب سے منعقد کیا گیا۔ جس میں صدارت عزت مآب عارف محمد خان ، گورنر آف کیرلا نے کی اور جسٹس ایل نرسمہا ریڈی ، سابق چیرمین سنٹرل ایڈمنسٹریٹیو ٹرائی بونل نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی ۔ ونیز این رام چندر راؤ ، سینئر ایڈوکیٹ اور ڈاکٹر شوکت علی مرزا ،سابق وائس چانسلر امریکن یونیورسٹی نے بحیثیت مقرر شرکت کی۔

سیمینار کی ابتدا میں ڈاکٹر شوکت علی مرزا نے کہا کہ ہندوستان کے دستور میں لفظ اقلیت کی کوئی صریحی وضاحت نہیں ہے ۔ہندوستانی دستور نے اپنے دیگر آرٹیکلز میں مساویانہ حقوق کی صریحاً گفتگو کی ہے اور اپنے تمام شہریوں کو مساویانہ حقوق دیئے ہیں لیکن اقلیتی طبقہ جو لسانی ، تعلیمی اور تمدنی بنیاد پر اقلیتی زمرے میں شامل ہے ،ان کے حقوق کو تحفظات فراہم کرنے کے لیے آرٹیکل 29 اور 30 تدوین کئے لیکن ملک کے مختلف حصوں میں، مختلف اقلیتی تعلیمی ادارے اس کا استحصال کررہے ہیں اور اس کو تجارتی مرکز میں تبدیل کررہے ہیںجس کی جانب حکومت کو توجہ دینی چاہئے ۔

این ۔ رام چندرراؤ نے اپنی تقریرمیں کہا کہ ہندوستان ایک بین المذاہب تہذیب کا گہوارہ ہے جس میں اقلیتی طبقہ کے حضرات کے لیے خصوصی مراعات ، تعلیمی ،تمدنی ، لسانی ،نژادی بنیادوں پر دی گئی ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستا ن میں بیسیوں مذاہب ، زبانیں او رتہذیبیں صدیوں سے ہم آہنگی کے ساتھ ہندوستانی سماج کا حصہ بنی ہوئی ہیں ۔ہندوستان نے ہمیشہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے جس کی مثال پارسی ، یہودی و دیگر قوموں کو اپنی سرزمین پر پناہ دینا اور ان کو اپنی تہذیب کا حصہ بنانا شامل ہے ۔ آرٹیکل 29 اور 30 نے ہندوستان کی لسانی ، تمدنی ، نژادی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظات کے لیے آئین کے تدوین کرنے والوں نے بہت ہی غور و خوض کے بعد ان دو آرٹیکلز کو آئین کو شامل کیا۔

جسٹس ایل نرسمہا ریڈی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سماج میں امن و یکجہتی و بھائی چارگی اسی وقت برقرار رکھی جاسکتی ہے جب ہم سماج کے ہر طبقہ کو اپنے ہمراہ لے کر چلنے کی کوشش کریں ۔ اس کے لیے اکثریتی طبقہ کو لازماً اقلیتی طبقہ کا احترام کرنااور اقلیتی طبقہ کو اکثریتی طبقہ کا احترام کرنا ضروری ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ آج دنیا کے دیگر ممالک اور دیگر بین الاقوامی قومیں ہندوستان کی جانب رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیوں کہ ہندوستان نے روز ازل ہی سے اپنے تہذیبی و تمدنی دروازے تمام مذاہب عالم کے لیے کھول رکھے تھے جس کی وجہ سے ہندوستان ایک ہمہ مذہبی اور ہمہ سماجی ملک بن گیا ۔

عزت مآب عارف محمد خان نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ میں چوں کہ ہندوستان میں پیدا ہوا اور یہیں تعلیم حاصل کی اور جب کوئی مجھے اقلیتی طبقہ کافرد تصور کرتا ہے تو مجھے اس تصور سے ہی تکلیف ہوتی ہے کہ کیوں کہ آئن ہند کی دفعہ 14 اور15 نے ملک کے سارے شہریوں کے لیے مساویانہ حقوق کی بات کی ہے ۔ کیا مجھے یہ بات زیب دیتی ہے کہ میں اس ملک میں کہ جہاں میں پیدا ہوا ہوں ، اقلیتی طبقہ کا فرد کہہ لاؤں کہ جس کا مطلب یہ ہے کہ میں دیگر طبقات کے افراد سے کم ہوں ؟

کیا مجھے اس قسم کے امتیازی برتاؤ پر شرم نہیں آنی چاہئے اور کیا اس بات سے میری عزت نفس کو ٹھیس نہیں پہنچے گی ۔ اقلیتی لفظ ،سامراجی حکومت کے نقطہ نظر سے تدوین کیا گیا اور آج تک اس لفظ کااستحصال مختلف سیاسی جماعتوں کے ذریعہ ہندوستان میں کیا جاتارہا ہے ۔ میں تو بنیادی طور پر اس اقلیت اور اکثریت کے تصور کے خلاف ہوں ۔ کیوں کہ ہم انسانی برادری ہیں جس کا بنیادی تقاضا مساوات ہے ۔جس کے متعلق آرٹیکل 14 اور 15 نے وضا حت کی ہے ۔ہندوستانی سماجی فلسفہ نے دیگر اقوام کو اپنے حلقہ میں شامل کرنے کے لیے ہمیشہ خوش آمدید کہا اور اس فراق دلآنہ رویہ نے ہندوستان کو بین الاقوانی سطح پر ہمہ لسانی، ہمہ مذہبی،ہمہ تمدنی اور ہمہ نژادی تہذیب کا گہوار ہ بنا دیا ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .