۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
سائرہ ابراہیم 

حوزہ/ مرکزی رہنما ایم ڈبلیو ایم پاکستان شعبہ خواتین نے کہا کہ حکومتی نمائندوں سے اپیل ہے آپ یہاں کے باشندے بن کر سوچیں ہماری نسلوں کے ساتھ گھناؤنا کھیل بند کریں اگر آپ کچھ نہیں کر سکتے تو خدا کے لئے آنے والی نسلوں کے گناہ گار نہ بنیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مرکزی رہنما مجلس وحدت المسلمین پاکستان شعبہ خواتین محترمہ سائرہ ابراہیم نے کہا ہے کہ حزب اختلاف ہو یا اقتدار کے نمائندے گزشتہ حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمران بھی صرف باتوں کی حد تک وقت گزار رہے ہیں۔ 70سالوں میں آنے والی کسی حکمران جماعت نے گلگت بلتستان کو ٹاون پلان نہ دیا ایسے حکمرانوں سے آئینی حقوق کیلئے عوام کیسے توقع رکھیں ہمارے ہاں کسی کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ٹاون پلان کیا ہے جب جس کا دل کرے سڑک کھودتا ہے سب اپنی مرضی کے مالک ہیں ایسا لگتا ہے کہ سارا سسٹم بگڑا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ عوام کی صحت کے لئے ایک ڈی ایچ کیو اسپتال ہے جس میں کسی بھی بڑے حادثے سے نمٹنے کے لئے سرجیکل ڈپارٹمنٹ موجود نہیں ہے اور حادثات میں سیریز زخمیوں کو اسلام آباد بھیجا جاتا ہے جو کہ اکثر راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں دوسری جانب دیہاتوں میں تعلیم کی یہ حالت زار ہے کہ آبادی سے میلوں دور اسکول بنائے جاتے ہیں ۔ حکومت سے گزارش ہے کہ سائڈ علاقوں میں سرکاری اسکولوں کی تعداد بڑھائے اور گلی گلی کھلنے والے پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں پر نظر رکھی جائے۔

انہوں نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنایا جائے تا کہ روزانہ کی بنیاد پر سفرکرنے والے طالب علموں کے مسائل حل ہو سکیں حکومتی نمائندوں سے اپیل ہے آپ یہاں کے باشندے بن کر سوچیں ہماری نسلوں کے ساتھ گھناؤنا کھیل بند کریں اگر آپ کچھ نہیں کر سکتے تو خدا کے لئے آنے والی نسلوں کے گناہ گار نہ بنیں 75 % افسران گلگت بلتستان کے باشندے نہیں ہیں خدارا گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے مسلے کو سنجیدہ لیا جائےگلگت بلتستان اسمبلی میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے اور اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے ساتھ ساتھ اگر ہم گریڈ ون کے ملازم اور مزدور طبقہ کا بھی سوچیں جو کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ہمارے ممبران اپنی کم تنخواہوں اور مراعات کا رونا روتے ہوئے پانچ سال گزار دیتے ہیں۔ اور اس پانچ سالہ عرصے میں کبھی بھی عام بندے کے مسائل پر گفتگو نہیں کی گئی۔

مزید کہا کہ گلگت بلتستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے کوئی مستقل زریعہ روزگار نہیں ہے گلگت بلتستان میں نوکریاں اور مراعات باہر والے سمیٹ رہے ہیں ہمارے قابل اور باصلاحیت نوجوان کو اتنا مجبور کر دیا گیا ہے کہ ہمارے ماسٹر ڈگری ہولڈر نوجواں ان کے آگے گریڈ ون کی ملازمت کی فائل لے کے جاتے ہیں حقوق ان کو ملتے ہیں جو لوکل حقوق کا تحفظ کرنا جانتے ہیں جب ہمارے نمائندے ہمارے بنیادی حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھا سکتے وہ کیا ہمارے آئینی حقوق پر آواز آٹھائیں گے یہ سب گزشتہ حکومتوں کی طرح ڈرامے بازی ہے جو صرف معصوم عوام کو بھلا کر اپنا وقت پورا کر کے جائیں گے۔

آخر میں کہا کہ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کے آئینی حقوق بڑا مسلہ ہے آپ پہلے یہاں کے بنیادی مسائل حل کرنا شروع کریں تو ہمیں بھی امید ملے گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .