حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین علامہ شیخ محمد حسن جعفری جامع مسجد سکردو بلتستان میں خطبہ جمعہ میں قرآن کریم کی اس آیت (وَ ھوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُسۡتَقَرٌّ وَّ مُستودع)کے ذیل میں گفتگو کرتے ہوے فرمایا کہ اس آیت میں دو چیزیں ہیں ایک مستقر اور ایک مستودع ہے اور ان دونوں کی مختلف تفاسیر بیان کی گی ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ مسقر سے مراد روح ہے جس کو فنا نہیں اور ہمیشہ باقی رہتی ہے اور مستودع سے مراد جسم ہے یعنی مرنے کے بعد انسان کا جسم گل سڑجاتا ہے فقط اہلبیت اور اولیا، شہداء اور خدا کے نیک بندوں کا جسم نہیں سڑتا بلکہ تر و تازہ رہتا ہے ۔بعض نے تفسیر بیان کیا ہے کہ مسقر سے مراد ایمان کامل ہے اور مستودع سے مراد جن کا ایمان کمزور ہو اور ہمیشہ گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ کن کا ایمان مستحکم نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے خطے کو آزادی دلاتے وقت وسائل کی بہت کمی تھی اس کے باوجود بھی یہاں کی غیرت مند عوام نے اپنی حکمت اور ایمان کی طاقت سے اٹھائیس ہزار مربع میل خطے کو آزاد کرایا،اس آزادی کی جنگ میں حصہ لیتے ہوئے ہمارے بہت لوگ شہید بھی ہوئے، ان شہداء میں خود میرے والد محترم بھی شامل ہیں۔ہم جنگ آزادی کے ان شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں،اس وقت کے ہمارے لوگوں نے گلگت بلتستان کو ایک پلیٹ میں رکھ کر پاکستانی حکومت کے سامنے تحفتًہ پیش کیا۔ البتہ اس وقت ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جس مقصد کے لیے ہمارے شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ان کے مقصد کو زندہ رکھیں۔ ہمارے خطے کے اندر کچھ تنگ نظر، انتہاپسند، اور فرقہ پرست لوگ آج بھی موجود ہے جو نہیں چاہتے کہ یہ خطے عبوری آئینی صوبہ بنے۔
مزید کہا کہ خطے گلگت بلتستان کو آزاد کرانے کا مقصد یہی تھا کہ یہاں مذہبی رسومات کے لیے مکمل آزادی ہو، پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح یہاں بھی عوام کے لیے بنیادی حقوق ملیں، ہمارے یہاں سب سے بڑے دو تعلیمی ادارے ہیں جن کو طلباء و طالبات کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ہر قسم کی برائیوں سے اس علمی ادارے کو دور رکھنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قراقرم یونیورسٹی میں ذکر حسین اور یوم حسین پر پابندی لگا دی جاتی ہے، لیکن رقص و سرود پر کوئی پابندی نہیں ۔
انکا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان جو اہلبیت علیہم السلام کی سرزمین ہے یہاں کے سب سے بڑے تعلیمی اداروں میں یوم حسین پر پابندی لگانا کوئی جواز ہی نہیں بنتا ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے اندر ہر مسلک کے لوگ ذکر حسین کرتے ہیں، مگر ہمارے یہاں یونیورسٹی کے سب سے بڑے منصب پر براجمان لوگ پتا نہیں کیوں ذکرِ حسین پر پابندی لگا رہے ہیں، اس سال کے آئی یو کے اندر یوم حسین پر پابندی لگا دی گئی مگر افسوس اس بات پر ہوتی ہے کہ اُسی یونیورسٹی کے اندر جہاں ذکر حسین پر تو پابندی ہوتی ہے مگر میوزیکل پروگرام کے لیے کوئی پابندی نہیں ہوتی، یونیورسٹی کے اندر میوزیکل پروگرام کے نام پر جوان لڑکیوں کو نچایا جا رہا ہے، اگر اتنے بڑے تعلیمی ادارے نوجوانوں کی تربیت اس طرح سے کرینگے تو یہ لوگ آگے جا کر کس طرح اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔
آخر میں کہا کہ ہم اس عظیم اجتماع کے توسط سے اِس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، لہذا اس طرح کے پروگرامز پر فوری طور پر پابندی لگادی جائے جب آپ کے تعلیمی اداروں کے اندر فحاشی کے پروگرامز ہوں گے تو ان سٹوڈنٹس کا کیا حشر ہوگا اور یہی سٹوڈنٹس آگے جا کے کیا ملک چلائں گے،جہاں پر بھی تعلمی اداروں کے اندر اس طرح کے پروگرامز ہورہے ہیں حکومت فوری ایکشن لے اور آئندہ اس طرح کے پروگرامز پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔