حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین علامہ شیخ محمد حسن جعفری جامع مسجد سکردو بلتستان میں خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے اندر کچھ ایسے عناصر موجود ہے جو ِسِرے سے نہیں چاہتے کہ گلگت بلتستان عبوری آئینی صوبہ بن جائے، یہ عناصر مختلف قسم کے پروپیگنڈے کر کے لوگوں کے اندر انتشار پھیلا رہے ہیں، اس وقت عبوری آئینی صوبہ بنانا حکومت کی طرف سے ایک اچھا اقدام ہے، اس کی وجہ سے سینٹ اور قومی اسمبلی میں ہماری بھی نمائندگی ہوگی یہ ہمارے لیے ایک خوش آئند بات ہے۔
انہوں نے وعظ و نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ امر بالامعروف کے خاص شرائط ہیں اور ان شرائط کے مطابق امر بالامعروف کرنے کی ضرورت ہے ۔فاسد کو فاسد کے ذریعے ختم نہیں کیا جاتا اور اس وقت ملک عزیز پاکستان کے اندر تحریک لبیک کی جانب سے سڑکیں بلاک کیئے ہوئے ہیں پتا نہیں کتنے مریض اسی وجہ سے دم توڑ گئے ہونگے، اسلام ہمیں کبھی یہ نہیں سکھاتا کہ آپ کی وجہ سے کسی کو تکلیف ہو، یہ لوگ انتشار اور نفرت پھیلانے کے علاوہ اور کوئی اچھا کام نہیں کر رہیں ہیں،یہ لوگ تو دشمن کو دعوت دے رہیں ہیں۔
مزید کہا کہ ماشاءاللہ سے اس دفعہ ہمارے یہاں سڑکوں کام بہت اچھا ہوا ہے، لہذا اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنی گاڑیوں کو احتیاط سے چلائے تاکہ زیادہ سے زیادہ حادثات سے بچ سکیں، اور ساتھ ہی یہ اپیل کرتے ہیں کہ شہر کے مختلف جگہوں پر سپیڈ بریکر لگائے جائے تاکہ حادثات کا خدشہ کم سے کم ہو۔
انکا کہنا تھا کہ جو کسی کیلئے گڑا کھودتا ہے وہ خود اسی میں گر جاتا ہے، آج کل امریکہ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، شہید قاسم سلیمانی پر قاتلانہ حملے کے بعد خود امریکہ دنیا کے اندر ذلیل و رسواء ہوچکا ہے، جس طرح سے افغانستان کے اندر سے ان کو ذلیل و رسواء ہوکے نکلنا پڑا ہے انشاء اللہ بہت جلد عراق کے اندر سے بھی ان کا صفایا ہوگا۔
امام جمعہ سکردو نے کہا کہ سی ایس ایس ایگزامز کے لیے عمر کی حد 40 سال تک کی جائے۔موسم کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سی ایس ایس کے پیپرز کو مؤخر کیا جائے۔ سی ایس ایس کے پیپرز کی تیاری کے لیے چھ ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے لہٰذا چھ ماہ کا وقت پورا دیا جائے۔ گلگت بلتستان کے اندر کویی عیسائی اوریہودی نہیں کہ سی ایس ایس ایگزام میں اقلیت کے نام پر کوٹہ مختص کیا جائے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ آج کل ہمارے یہاں شادیوں کا سیزن عروج پر ہے ،بدقسمتی سے کچھ غلط کلچر اس میں شامل ہوچکا ہے،یہاں تک کہ کچھ کلچر تو مغرب کے بھی شامل ہوچکے ہیں، ہمیں اس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے انجمن امامیہ کی جانب سے پہلے بھی کچھ نکات قوم کی خدمت میں دئے گئے تھے کچھ پر عمل ہوا اور کچھ پر عمل نہیں ہوا۔ انجمن امامیہ سے ایک بار پھر درخواست کرتے ہیں کہ شادی رسومات کے حوالے سے کچھ قوانین کو وضع کیا جائے۔ یہ سال تو بدقسمتی سے ایسے ہی نکل گیا آئندہ سال کے شروع ہی میں ایک اہم میٹنگ کی جائے جس میں ہمارے علمائے کرام اور ہر جگے سے نمائندے شامل ہوں،اور کچھ پڑھی لکھی خواتین کو بھی اس میٹنگ میں شامل کیا جائے تاکہ اس حوالے سے ان کی بھی رائے لی جاسکے۔ اس میٹنگ کا مقصد ہمارے معاشرے کے اندر شادیوں کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانا اور جو کچھ غلط رسومات اس کے اندر شامل ہوچکا ہے اس سے لوگوں کو دور رکھنا ہے۔
آخر میں کہا کہ معاشرے کے اندر کچھ خواتین ایسی ہے جو مختلف قسم کے عطر لگا کر مختلف قسم کے زیورات سے آراستہ ہو کر نامحرم کے سامنے جاتی ہے، قرآن مجید میں اس طرح کی خواتین کے بارے میں ارشاد ہے کہ خواتین صرف اور صرف اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کے سامنے اس طرح سے بن سنور کے نہیں جاسکتیں،عورت کا اپنے محارم کے علاوہ کسی اور کے سامنے اس طرح سے آراستہ ہونا شرعاً حرام ہے۔مردوں کے لیے بھی قرآن میں یہی حکم صادر ہوا ہے کہ جب بھی کسی نامحرم پر نظر پڑے فوری اپنی نظروں کو جُھکائے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے اندر مرد اور خواتین کے اندر شرم و حیاء ختم ہوچکا ہے۔