حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی و شیعہ علماء کونسل پاکستان کے رہنما علامہ شبیر میثمی نے حالت حاضرہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا شہنشاہ حسین نقوی حفظہ اللہ کی ایف آئی آر کا مسئلہ، پنجاب میں چالیس سادات خواتین پر ایف آئی آر، ایک اور جگہ کسی مومن نے دس مجلسیں اپنے گھر پر کیں تو اس پر ایف آئی آر کاٹی گئی ہے۔ یہ چند سالوں میں ہمارے خلاف اتنی زیادہ ایف آئی آریں کیوں کٹنے لگی ہیں؟ سندھ میں بھی مسائل ہوئے لیکن نسبتاً پچھلے سال سے صورتحال بہتر رہی۔ وہ شخصیت جس کی شیخ رشید تعریف کرے اور جو عمران خان کو امام ضامن باندھے، اس پر ایف آئی آر؟ یہ باقاعدہ طور پر سازش کا ایک جال بچھایا جا رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقتاً ظالم ہیں کیونکہ عزاداری سے کس کو پرابلم ہے؟ ابھی کراچی میں ایک جگہ مجلس کے حوالے سے NOC کا مسئلہ کھڑا ہوا، حل نہیں ہو رہا تھا۔ ہم نے ایس ایچ او سے کہا کہ ہم ڈانس پارٹی کی اجازت تو نہیں لے رہے، اگر وہ لے رہے ہوتے تو تم کھڑے کھڑے دے دیتے۔ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری پر تم کو پرابلم ہے؟
انہوں نے کہا کہ عزاداری سے ہر اس شخص کو پرابلم ہے جو ظلم کرتا ہے یا ظلم کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے، وہ سمجھتے ہیں، کیونکہ انہوں نے تاریخ تو پڑھی نہیں ہے کہ عزادار ظاہراً شلوار قمیض میں گھوم رہا ہے، دو پٹی کی چپل میں گھوم رہا ہے، سر کے بال بکھرے ہوئے ہیں، آستین اس کی چڑھی ہوئی ہے، فاقہ اس نے کیا ہوا ہے، یہ عزادار اپنی ہر چیز کو قربان کرسکتا ہے لیکن عزاداری کو قربان نہیں کرسکتا۔ اس لئے کہ ماں نے اپنے بچے کو یہی درس دیا ہے کہ عزاداری کو قربان مت کرنا کیونکہ یہ اسلام کی بقاء کی ضامن ہے۔ لیکن یہ لوگ اس بات کو سمجھتے نہیں ہیں۔ عاشورا کے دھماکے کے بعد اربعین کے جلوس میں قائد ملت جعفریہ بھی تشریف لائے، علماء بھی تشریف لائے اور اتنا بڑا جلوس نکلا کہ لوگوں کو یہ کہنا پڑا کہ ان کو مت چھیڑا کرو۔
مزید کہا کہ اللہ رحمت کرے علامہ حسن ترابی شہید پر، 28 صفر کا جلوس جو نشتر پارک سے نکلتا ہے اور شاہِ نجف، مارٹن روڈ میں ختم ہوتا ہے، ایک زمانہ میں وہ جلوس دو سو، تین سو لوگوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس شہید کی عجیب قربانی ہے کہ جہاں سے اس جلوس پر پتھر آتے وہیں پر وہ تقریر کرتے اور نعرۂ حیدری بھی لگواتے۔ اسی مسجد سے جہاں سے پتھر آتے تھے وہاں سے انہوں نے جوآخری تقریر کی اس میں بھی انہوں نے نعرۂ حیدری اور حسینیت زندہ باد کے نعرے لگوائے۔
علامہ شبیر میثمی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایف آئی آروں کے ذریعے ہمارے حوصلے پست کردیں گے۔ پچھلے سال جب زیارت عاشورا پر ایف آئی آر کٹی تھی تو ہمارے دوست سرور علی نے بڑا پیارا جملہ کہا کہ پتا نہیں کوئی عمل قبول ہو یا نہ ہو، یہ ایف آئی آر میری قبر میں ڈال دینا۔ جب اٹھارہ دن جیل میں گزار کر آئے تو کہنے لگے کہ اب مجھے عزاداری زیادہ اچھی لگتی ہے اس لئے کہ اٹھارہ دن قید میں رہا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اہل بیت تو کتنا عرصہ اسیر رہے۔ ناں قید ہمارے لئے کوئی مشکل ہے نا ایف آئی آر ہمارے لئے کوئی مشکل ہیں۔ میں واضح طور پر پورے پاکستان کے شیعوں کے دل کی آواز کہہ رہا ہوں کہ ہم کٹ سکتے ہیں، ہم مر سکتے ہیں، ایک قدم بھی عزاداری سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
انکا کہنا تھا کہ بعض مرتبہ یہ دشمن جو دشمن اسلام، دشمن پاکستان ہیں، سبب خیر بن جاتے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ شیعہ قوم ویسے دس ہزار چیزوں پر لڑیں مریں لیکن جب لاالہ الااللہ، محمد رسول اللہ، علی ولی اللہ وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلافصل پر کوئی بات آتی ہے، جیسا کہ قادیانیوں والے مسئلہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا کہ جس میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے میں ایک بڑی دلیل یہ قرار دی گئی کہ اگر کوئی اور نبی آتے تو رسول اکرم ﷺ غدیر خم میں نہ کہتے کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ ولایت علی ابن ابیطالب علیہما السلام، خلافت بلافصل امیرالمومنین علیہ السلام نے تمام مسلمانوں کی یہاں پر بھی مدد کردی۔ اب آ کر کہو کہ قادیانیوں کے مقابلہ میں کس نے اسلام کو مضبوط کیا: علی ولی اللہ، وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلافصل نے۔
مت چھیڑو۔ تم نے بہت بڑی غلطی کی۔ تم نے ہمیں جگایا نہیں بلکہ ہمارے سروں پر پوری بالٹی پانی کی انڈیل دی۔ قوم ایک دم سے جاگی کہ بات علی ولی اللہ، وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلافصل تک پہنچ گئی۔ ہر کوئی کھڑا ہوگیا۔ دو چیزیں جس پر شیعہ قوم کا ہر فرد، اس کو جب بتا دیا کہ یہاں پر ایک مشکل آئی ہے اور وہ مشکل دو چیزوں میں سے ایک پر آئی ہے، ایک خلافت بلافصل پر اور ایک عزاداری پر، وہ ہر چیز چھوڑ کر میدان میں کھڑا ہوجائے گا۔ دشمن کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس نے ایسی چیز کو چھیڑا ہے کہ پوری دنیا کے شیعہ کٹ جائیں لیکن زبان پر یہی رہے گا: و خلیفتہ بلافصل۔ اچھا کیا تم نے، ہم تھوڑا اختلافات کی نذر ہوگئے تھے، لیکن اب ہر شیعہ اس پلیٹ فارم پر آگیا ہے کہ ان دو چیزوں پر اگر جان قربان کرنی پڑے تو ہم حاضر ہیں۔
انہوں نے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ کسی قسم کی Loose ٹاک نہیں ہونی چاہئے۔ ایسا وہ کرے جس کے پاس دلیل نہ ہو۔ موقع آیا ہے کہ جن لوگوں کو اس کلمہ کے آخری الفاظ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے، ان کو بتا دیجئے۔ منبر سے مولائے کائنات کے اتنے فضائل پڑھے جائیں کہ دنیا حیران ہوجائے کہ اتنے فضائل والی شخصیت کو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ کسی کی دل آزاری مت کریں۔ امام حسین علیہ السلام اپنے قاتلوں کو آخر وقت تک نصیحتیں کرتے رہے۔ منبر اور مجلس میں خیانت کرنے والوں کی طرف مت جائیے۔ ان مجلسوں میں مت جائیے جہاں پر مولاکے فضائل کو ایسے لوگوں کے مقابلے میں بیان کیا جائے جن کا نام بھی نہیں لینا چاہئے۔ خود نے نہج البلاغہ میں شکایت کی ہے کہ افسوس وہ زمانہ آگیا ہے کہ علی کا فلاں سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ مجالس اور منبر اسلام کا مضبوط قلعہ ہیں، انہیں مضبوط کیجئے۔ دشمن کو پتا ہے کہ یہاں سے حق اور عدالت کی گفتگو کی جاتی ہے جو لوگوں کے دلوں پر اثر کرتی ہے۔ رشوت لینے والاکہتا ہے کہ اگر مجھے علی کا شیعہ بننا ہے تو حرام کام چھوڑنے ہوں گے۔
شیعہ علماء کونسل کے رہنما نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو ہم جلوس نکال کر امام بارگاہ علی رضاؑ تک جاتے ہیں اور وہاں سے واپس آجاتے ہیں، میں اس کو صحیح نہیں سمجھتا ہوں۔ کتنا ٹائم لگے گا؟ اگر آپ نہیں چل سکتے تو وہیل چیئر لے لیں، میں وہیل چیئر چلاؤں گا۔ بہنیں آئیں تو پردہ کرکے آئیں تاکہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا ان کا استقبال کریں۔ آپ کے یہ جلوس اتنی اہمیت کے حامل ہیں کہ آپ تصور نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ اگر شہد کی مکھیوں کے اس چھتے کو چھیڑو گے تو حشر بہت برا ہوگا۔ اس لئے جلوسوں کو مضبوط کریں، مجلسوں کو مضبوط کریں۔ اب ان شاء اللہ ایک مثبت موومنٹ چلے گی، اتحاد اور وحدت کے ساتھ۔ ان شاء اللہ پوری دنیا کو بتائیں گے کہ علی ولی اللہ، وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلافصل ہی حق ہے۔