۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
رہبر انقلاب اسلامی

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے بدھ 25 ستمبر 2024 کی صبح مقدس دفاع اور استقامت کے شعبے میں سرگرم رہے ہزاروں افراد اور سینیئر فوجیوں سے ملاقات میں، مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے اسباب کی تشریح کرتے ہوئے نئي بات اور کشش کو دنیا پر حاکم فاسد اور باطل نظام کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کے دو اہم عناصر قرار دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے بدھ 25 ستمبر 2024 کی صبح مقدس دفاع اور استقامت کے شعبے میں سرگرم رہے ہزاروں افراد اور سینیئر فوجیوں سے ملاقات میں، مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے اسباب کی تشریح کرتے ہوئے نئي بات اور کشش کو دنیا پر حاکم فاسد اور باطل نظام کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کے دو اہم عناصر قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ مقدس دفاع ملک کا گرانقدر دفاع ہونے کے ساتھ ہی دین اور اللہ کی راہ میں جہاد کا بھی دفاع تھا جس نے اسلام کو حیات نو بخشی، ایرانی قوم کو مقبول بنایا اور ملک میں روحانیت کی فضا قائم کر دی۔

انھوں نے فلسطین اور لبنان کے حالیہ واقعات کو مقدس دفاع کے واقعات کی مانند اور جہاد فی سبیل اللہ کا مصداق بتایا اور کہا کہ ایک اسلامی ملک یعنی فلسطین پر دنیا کے سب سے خبیث کافروں نے غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے اور حتمی اور شرعی حکم یہ ہے کہ سبھی کو فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کو ان کے اصل مالکوں کو لوٹانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ حزب اللہ لبنان، جو غزہ کے دفاع کے لئے سینہ سپر ہو گئی اور تلخ واقعات کا سامنا کر رہی ہے، اللہ کی راہ میں جہاد کی حالت میں ہے۔

انھوں نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ سے اس جنگ کی ایک دوسری شباہت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ میں کافر اور خبیث دشمن سب سے زیادہ ہتھیاروں اور وسائل سے لیس ہے اور امریکا بھی اس کی پشت پر ہے اور امریکیوں کا یہ دعویٰ کہ انھیں صیہونیوں کے اقدامات کی اطلاع نہیں ہے اور وہ اس سلسلے میں کوئي دخل نہیں دے رہے ہیں، جھوٹ ہے۔ انھیں اطلاع بھی ہے، وہ دخل بھی دے رہے ہیں اور انھیں صیہونی حکومت کی جیت کی ضرورت بھی ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس سلسلے میں کہا کہ امریکا کی اسی موجودہ حکومت کو، آئندہ انتخابات کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ دکھائے کہ اس نے صیہونی حکومت کی مدد کی ہے اور اس کو فتح دلائي ہے، البتہ اسے امریکی مسلمانوں کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہے اور اسی لیے وہ یہ ظاہر کر رہی ہے کہ اس کی کوئی مداخلت نہیں ہے۔

انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں سنہ 1980 میں ایرانی قوم کے خلاف جنگ شروع کیے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی سرحدوں پر حملے کا محرک، صدام اور بعث پارٹی تک محدود نہیں تھا بلکہ اس وقت کے عالمی نظام کے سرغنہ یعنی امریکا، سوویت یونین اور ان کے پٹھو بھی حملہ کرنے کے بہت زیادہ خواہاں تھے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایران کے بے مثال انقلابی عوام سے بڑی طاقتوں کی دشمنی کی وجہ، ان کے لیے اس انقلاب کی نئي سوچ اور پیغام کا ناقابل برداشت ہونا تھا اور ان کی دشمنی کا سبب یہ تھا کہ اسلامی انقلاب، دنیا پر حکومت کر رہے باطل اور تباہ کن نظام اور اسی طرح تسلط پسندانہ نظام یعنی دنیا کو تسلط قائم کرنے والے اور تسلط برداشت کرنے والے دو گروہ میں تقسیم کرنے والے اور دیگر ممالک پر تسلط پسندوں کے کلچر اور رائے کو مسلط کرنے والے نظام کی مخالفت کا اعلان تھا۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تسلط پسند، اسلامی انقلاب کی نئي بات کو برداشت نہیں کر سکتے تھے جو اقوام کے لیے پرکشش اور قابل فروغ تھی، کہا کہ وہ ایران پر حملے کے لیے موقع کی تاک میں تھے اور صدام نے جو ایک جاہ طلب، لالچی، پست فطرت، ظالم اور لاابالی انسان تھا، بڑی طاقتوں کو یہ موقع فراہم کر دیا اور ان کے ورغلانے پر اس نے ایران پر حملہ کر دیا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ آج مختلف میدانوں میں ایرانی قوم کی استقامت اور موجودگي کی برکت سے کسی میں بھی ایران کی سرحدوں پر حملے کی ہمت نہیں ہے اور وہ لوگ آج ایک دوسری شکل میں خباثت اور عناد میں مصروف ہیں اور اس بات کو پوری گہرائي سے سمجھنا چاہیے کہ دشمنی کی وجہ، ایٹمی توانائي، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق جیسے بہانے نہیں ہیں بلکہ وہ بدعنوانی عالمی نظام کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کی طرف سے پیش کی جانے والی نئي سوچ کے مخالف ہیں۔

انھوں نے مسلط کردہ جنگ کے آغاز میں فوجی وسائل اور فوج کے لحاظ سے ملک کی ابتر صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عام اور مادی اندازوں اور اصولوں کے مطابق جارح فریق کو ایک یا کچھ ہفتوں کے اندر تہران تک پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن ایک سال گزرنے کے بعد ہماری انھی فورسز کے ہاتھوں زبردست فتوحات نے، جو جنگ کے آغاز میں ناتواں تھیں، صدام کی پوری طرح سے لیس فوج پر کاری ضربیں لگائيں اور آٹھ سال بعد اسے ملک کی سرحدوں سے باہر دھکیل دیا گيا اور اس فتح کی اصل وجہ، ایمان اور مجاہدت تھی۔

رہبر انقلاب نے اسی طرح کہا کہ جنگ، صرف وطن کے دفاع کے لیے نہیں تھی، اگرچہ وطن کا دفاع ایک اعلیٰ قدر ہے لیکن جنگ کا مسئلہ، اس قدر سے کہیں بالاتر یعنی اسلام کا دفاع اور قرآنی احکام پر عمل تھا جسے اسلامی تعلیمات میں جہاد فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مقدس دفاع نے انقلاب اور اسلام کو زندہ رکھا، کہا کہ اسی بنیاد پر پورے کا پورا محاذ، عبادت گاہ، دعا، توسل، آدھی رات کو خدا کے حضور گڑگڑانے اور پرخلوص خدمت کے میدان میں بدل گیا اور اس طرح کے جذبے کی وجہ سے ہی خداوند عالم نے اپنی عزت، نصرت اور فتح، ایرانی قوم کے شامل حال کی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .