۲۷ خرداد ۱۴۰۳ |۹ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jun 16, 2024
1

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ کی شام لبنان کے پارلیمنٹ اسپیکر جناب نبیہ بری سے ملاقات میں اس تلخ اور سنگین سانحے پر لبنانی حکومت اور قوم کی جانب سے تعزیت اور ہمدردی کے اظہار پر شکریہ ادا کیا اور کہا: شہید ڈاکٹر رئیسی کو کھو دینا ہمارے لیے سخت ہے لیکن اللہ کے لطف و کرم سے ایرانی قوم، اس تلخ سانحے سے ایک موقع کی حیثیت سے فائدہ اٹھائے گی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ کی شام لبنان کے پارلیمنٹ اسپیکر جناب نبیہ بری سے ملاقات میں اس تلخ اور سنگین سانحے پر لبنانی حکومت اور قوم کی جانب سے تعزیت اور ہمدردی کے اظہار پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ لبنان میں عام سوگ کا اعلان، دونوں ملکوں کی زبردست ہمراہی کا عکاس ہے اور اپنے لبنانی بھائیوں اور جناب سید حسن نصر اللہ صاحب سے اپنی نسبت، رشتہ داری اور اخوت کی نسبت سمجھتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حالیہ سانحے میں ہم نے ایک نمایاں شخصیت کو کھو دیا اور یہ بات ہمارے لیے بہت سخت ہے لیکن اللہ کے لطف و کرم سے ایرانی قوم، اس تلخ سانحے سے ایک موقع کی حیثیت سے استفادہ کرے گی، جیسا کہ پچھلے برسوں میں سخت سانحوں سے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مرحوم صدر اور ان کے ساتھیوں کے جلوس جنازہ میں ایرانی قوم کی بھرپور شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بحمد اللہ ہماری قوم، ایک بیدار اور ڈٹ کر کھڑی رہنے والی قوم ہے اور خداوند عالم پر ہمارا اعتماد اور توکل زیادہ ہے اور ان شاء اللہ ایرانی قوم اس سانحے سے فائدہ حاصل کرے گی۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اسی طرح لبنان میں مزاحمتی گروہوں کے درمیان ہمدلی پر مسرت کا اظہار کیا اور خطے میں "وجود" کی جنگ کی جناب نبیہ بری کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ خطے کے موجودہ حالات ایسے ہیں کہ وہ صیہونی دشمن کے لیے بھی زندگی اور موت کے حالات ہیں اور حق کے محاذ کے لیے بھی۔

انھوں نے کہا کہ فلسطین اور غزہ کے حالیہ واقعات میں لبنان کی شمولیت کا بہت گہرا اثر ہوا ہے اور اگر یہ کام نہ ہوتا تو یقینی طور پر سب سے زیادہ نقصان خود لبنان کا ہوتا۔

اس ملاقات میں لبنان کے پارلیمنٹ اسپیکر جناب نبیہ بری نے حالیہ سانحے پر لبنان کی قوم اور حکومت کے شدید غم و اندوہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ایرانی بھائیوں کے زخم کو خود اپنا زخم سمجھتے ہیں اور یہ ہمارا فرض تھا کہ لبنان کی حکومت اور قوم کی نمائندگی میں، تہران پہنچیں۔

انھوں نے خطے کے حالات اور غزہ کی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے وجود کی جنگ بتایا اور کہا کہ لبنان، غزہ کے لوگوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہ سکتا تھا اور اسی وجہ سے لبنانی مزاحمت، غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے میدان میں آ گئی ہے اور ہم موجودہ حالات کی تبدیلی کی پہلی شرط، غزہ کی جنگ کے خاتمے کو سمجھتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .