حوزہ نیوز ایجنسی। ایران میں ہفتہ عدلیہ کے موقع پر عدلیہ کے سربراہ اور عہدیداران نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی تھی۔ حسب دستور ملاقات کے مضمون کے مطابق حسینیہ امام خمینی میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ایک حدیث آویزاں نظر آئی: «العَدلُ أساسٌ بِه قِوامُ العالَمِ» جسے مندرجہ ذیل عبارت میں رہبر انقلاب اسلامی کی تقاریر کے اقتباسات کی مدد سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی اس حدیث کی تشریح پیش کی ہے؛
سماجی نظام میں عدل و مساوات کے موضوع کی اہمیت کا بخوبی ادراک تب ہو سکتا ہے جب ہم نظام خلقت میں اس کی منزلت کو سمجھ لیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک حدیث منقول ہے: «بِالعَدلِ قامَتِ السَّماواتُ وَ الاَرض» یعنی «زمین و آسمان اور کائنات عدل و انصاف کی وجہ سے قائم ہیں۔» 20 فروری 2003 «عالم خلقت میں عدل و انصاف کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ یعنی خلقت کی ماہیت عدل و انصاف پر استوار ہے۔ »28 جون 2001 البتہ اس حدیث میں عدل کا عام مفہوم مراد ہے۔ « عدل وہی اعلی و ارفع مفہوم ہے جو ذاتی زندگی، عمومی زندگی، جسم و جان، جمادات و نباتات اور دنیا کے تمام تغیرات میں موجود ہوتا ہے۔ یعنی ایک صحیح اعتدال۔۔۔معتدل ہونا اور نقص کی سمت نہ جانا اور حد اعتدال سے خارج نہ ہونا۔»21 جنوری 1993 اس مفہوم کے اعتبار سے حدیث کے معنی یوں ہوں گے: «آسمانوں کا وجود بھی اسی اعتدال و عدل و توازن کی وجہ سے قائم ہے۔» 21 جنوری 1993 معاشرے میں بھی یہی قانون نافذ ہے۔ «سماجی نظام بھی عدل پر منحصر ہے۔ اگر عدل نہ ہو تو معاشرے میں کچھ نہیں رہے گا۔» 28 جون 1998 سماجی قالب میں عدل کا مطلب ہے: «دستیاب وسائل کی منصفانہ تقسیم۔»30 اگست 2005 علم، پیشرفت اور امن و سلامتی ہونا چاہئے«لیکن ان سب کا رخ عدل کی طرف مرکوز ہونا چاہئے۔ ثروت تو ہے مگر معاشرے میں مساوات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔»3 اگست 1997 اگر عدل و انصاف نہ ہو تو «امن و سلامتی کا سارا فائدہ صرف متمول اور مالدار طبقے کو ملے گا... ساری سہولتیں ایک سمت میں جمع ہو جائيں گی۔»28 جون 1998 در حقیقت «جو بھی سماج اس قدرتی مزاج اور خلقت کے قانون خداوندی کے مطابق چلے گا پائیدار و کامیاب ہوگا۔» 28 جون 2001 اس کے مد مقابل یہ بھی دنیا کی حقیقت ہے کہ «ظلم پائيدار نہیں ہو سکتا، دوام حاصل نہیں کر سکتا۔» 20 فروری 2003