۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
داعش

حوزہ/ اگر سعودی عرب میں ابن تیمیہ، بنو امیہ اور وہابیت و نجدیت نہ ہوتی تو امریکہ کبھی بھی داعش جیسی خونخوار تنظیم نہ بنا پاتا، امریکہ کبھی بھی نجدیت کو رواج نہ دیتا اور سعودی عرب کبھی بھی اسکی حمایت نہ کرتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پاکستان کی معروف کالم نگار محترمہ سویرا بتول نے تکفیری فکر دین اسلام میں ایک نقصان دہ اور خطرناک تفکر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تفکر اگرچہ نیا نہیں ہے، یوں کہا جاٸے کہ یہ نظریہ چودہ سو سال قبل بنو امیہ کے دورِ حکومت میں پروان چڑھا تو بے جا نہ ہوگا، بلکہ یہی عین حقیقت ہے۔ مودة فی القربیٰ کا اجر امت نے یوں دیا کہ بعد از رحلت پیغمبرِ اسلامﷺ، اہلِ بیت اطہار کو اُن کے مقام و منزلت سے محروم کیا گیا، مؤرخ خریدے، تاکہ چالیس سال تک ممبر سے نفسِ رسول علی ابن ابی طالب کے خلاف سب و شتم کروایا جاٸے۔ یہی انداز شام کے ابتدائی دور حکومت سے چلا آرہا تھا۔ حصولِ خلافت کے لیے شروع میں جس کسی نے گروہ بندی کی، غلط روایتیں گڑھواٸیں، یا آلِ محمد کی مفلوک الحالی کے اسباب فراہم کٸے، وہ اس پیمانے پر نہ تھے، ان میں کبھی کبھی اولادِ رسول کی قدردانی کے مناظر بھی مل جاتے، لیکن جب سے امیرِ شام تختِ خلافت کو مدینہ اور کوفہ سے دمشق اٹھا لاٸے، اُس وقت سے بنی ہاشم پر زمین تنگ کر دی گٸی۔ گویا اِن کا بانی اسلامﷺ سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ حق تھا تو بنی امیہ کا، وراثت تھی تو بنو امیہ کی، اہلیت تھی تو بنو امیہ میں، گویا اہل بیت اطہار کچھ تھے ہی نہیں۔ محبان آلِ رسول پر وہ ستم روا رکھے گٸے جسے سن کر تاریخِ انسانی بھی شرما جاٸے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ داعش اور تکفیری فکر دور بنی امیہ سے چلی آرہی ہے تو بعض احباب اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ آیئے اختصار کے ساتھ یہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس فکر کو کیسے پروان چڑھایا گیا اور اس کا پس منظر کیا ہے۔

داعش کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے آیٸے ایک نظر بنو امیہ کی تاریخ پر ڈالتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ عالمی درندگی کا دور کب اور کیسے شروع ہوا؟ سالوں سے دلوں میں آلِ رسول کا کینہ یوں تو پروان چڑھ رہا تھا، مگر جیسے ہی تخت ِخلافت بنی امیہ کے ہاتھ آیا، گویا سالوں کی تمناٸیں پوری ہوٸیں۔ چن چن کر محبان آل رسول کو مارا گیا۔ شروع میں مغیرہ بن شعبہ کوفے کا گورنر بنا۔ اس نے سینکڑوں علی والوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور ان کے وظاٸف بند کیے۔ وہ علی اور ان کی اولاد پر نہ صرف تبرا کرتا بلکہ کھلے عام گالیاں بھی دیتا۔ زیاد بن ابو سفیان کوفہ کے ہر شیعہ کو جانتا تھا۔ اِس نے پہنچتے ہی ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ محبانِ علی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گرفتار کیا گیا، کسی کے ہاتھ پاٶں کاٹے، کسی کی آنکھوں میں سلاٸیاں پھروا کر اندھا کر دیا، کسی کو زندہ دفن کر دیا، کسی کو گھر میں آگ لگا کر جلا ڈالا، ظلم کی کوٸی حد اس نے اُٹھا نہ رکھی۔ قید خانے شیعوں سے بھر دیٸے اور جو بچ گٸے انہیں شہر بدر کر دیا۔

کوفہ و بصرہ میں مجموعی طور پر ایک لاکھ پچاس ہزار محبان اہلبیت اس کے ہاتھوں مارے گٸے۔ شیعوں کے قتل اور گرفتاری کے حوالے سے امیر شام کی طرف سے سخت ہدایات جاری کی گٸیں تھیں۔ جو شخص علی علیہ السلام اور اولاد علی پر لعنت کرتا اسکو چھوڑ دیا جاتا اور باقی لوگوں کو قتل کر دیا جاتا۔ ایک طویل فہرست ہے علی کے ان سرفرشوں کی، جنہوں نے ننگی تلواروں کی چھاٶں میں حب علی کے نعرے بلند کیے۔ حجر بن عدی اِن میں ایک درخشان نام ہے۔ یہ تاریخ کا وہ ٹکڑا ہے، جو بنو امیہ نے آل محمد اور آل علی علیہ السلام کے خلاف رقم کیا۔ گویا ان کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت تھی ہی نہیں۔ جس طرح کے عقاٸد اور نظریات توحید کے حوالے سے بنو امیہ کے تھے، وہی ابن تیمیہ کے تھے، ابن تیمیہ نے انہی نظریات کو عام کرنے کے ساتھ تکفیر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلایا، اپنے مقابل ہر جماعت، ہر شخص کو کافر اور واجب القتل قرار دیا۔

آل امیہ اور ابن تیمیہ کے نظریات سے داعش جیسی عالمی دہشتگرد تنظیم قیام کا موجب بنی، جو اسلام کا جھنڈا بلند کرکے ہر ذی روح کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہتی ہے۔ وہ من گھڑت احادیث جو بنو امیہ نے عقیدہ توحید کے حوالے سے گھڑی تھیں، اسی طرز پر داعش نے ہر شخص کی تکفیر کرتے ہوئے قتل و غارت کا بازار گرم کئے رکھا۔ آیئے ایک نظر بنوامیہ اور ابن تیمیہ کی توحید پر ڈالتے ہیں:
1۔ خدا عادل نہیں، وہ اپنی مرضی سے حکم چلاتا ہے۔
2۔ عقل و منطق باطل ہے، جو منطق بیان کرتا ہے، وہ کافر ہے(اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ ناصبی اور آل امیہ کے پیروکار جہاز، ریڈیو حتیٰ صوفے کو بھی باطل اور کافر قرار دیتے ہیں۔)
3۔ جو کام بھی ہم کرتے ہیں، وہ خدا کی طرف سے ہے۔ 
4۔ خدا جبر کرتا ہے(ان دونوں نظریات کی بنا پر ابن تیمیہ نے یزید لعنتی پر لعنت کرنے کو جائز قرار نہیں دیا اور کہا معاملہ خدا پر چھوڑ دو، لعنت ہو ایسے نظریہ پر، لعنت ہو ایسی سوچ پر)
حالانکہ ابن تیمیہ کے وہ نظریات جو خدا تعالیٰ کی عصمت و طہارت کے متعلق ہیں، اس کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں، نعوذ بالله من ذلك خدا دوزخ میں پیر رکھے گا، کرسی پر بیٹھے گا۔۔

خدا لعنت کرے بنوامیہ اور ابن تیمیہ پر ایسی روایات کا جنگل تخلیق کیا، جو سراسر اہل بیت اطہار کے بغض میں تھا، آل محمد کے خون کے پیاسے یہ لوگ شرک باری تعالی اور نبیﷺ کی سیرت کو مجروح کرنے سے بھی باز نہ آٸے۔ داعشیوں کا اپنے ہی ماں، باپ کو قتل کرنے پر کسی کو تعجب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، خاص طور پر سعودی عرب میں رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات پر تو بالکل نہیں، جہاں زیادہ تر آبادی وہابی مدرسہ فکر سے تعلق رکھتی ہے، جو درحقیقت داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی بھی منبع فکر ہیں، وہابی مسلک والے درحقیقت شیخ ابن تیمیہ کے فتوئوں پر عمل کرتے ہیں، ابن تیمیہ ہی نے بچوں کے ماں اور باپ کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری کیا تھا، یہ فتوی ابن تیمیہ کی مشہور کتاب ’’مجموعہ الفتاویٰ‘‘ جلد چہاردہم صفحہ نمبر 478 پر درج ہے۔ جہاں انہوں نے باپ کے مشرک ہونے پر اس کا بیٹے کے ہاتھوں قتل کو جائز قرار دیدیا ہے، اس کے باوجود بیشتر لوگ یہی سوچتے ہیں کہ داعش کہاں سے آئی ہے اور داعشی اپنے ماں، باپ، بہن، بھائی اور باقی رشتے داروں کو کیوں جان سے مار ڈالتے ہیں۔

سعودی عرب میں تکفیری سوچ سے متاثرہ افراد اور ابن تیمیہ کے فتوے پر عمل کرنے والوں نے سعودی عرب کو اپنے قبیح اعمال سے ہلا کر رکھ دیا ہے، آئے روز وہاں کوئی نہ کوئی داعشی اور ’’محب ابن تیمیہ‘‘ اپنی ہی ماں، باپ، بھائی، بہن اور دیگر رشتہ داروں کو قتل کر رہا ہے، یہ سوچ کر کہ وہ کافر ہیں، داعش والوں کو اپنے علاوہ کوئی بھی مسلمان نظر نہیں آتا، بس جو ان کی طرح نہیں، وہ مسلمان نہیں اور واجب القتل ہیں، چاہے وہ اس کے اپنے ماں باپ کیوں نہ ہوں، جیسا کہ ابن تیمیہ کہتے ہیں۔ آیئے اب نظر ڈالتے ہیں کہ داعشی ابن تیمیہ کے اس فتویٰ کو عملی جامہ کس طرح پہنا چکے ہیں، 25 ستمبر 2015ء سعودی داعشی نوجوان نے چچا زاد بھائی کو قتل کر دیا، اس سے قبل ایک اور داعشی نے اپنے باپ کو اس لیے قتل کر دیا، کیونکہ باپ نے پولیس کو اطلاع دی کہ اس کا بیٹا تکفیری سوچ کا حامل انتہاء پسند ہے، اس واقعہ میں جب پولیس بیٹے کو گرفتار کرنے کے لیے اس کے گھر کا گھیراو کرتی ہے تو بیٹا تکبیر کرتے ہوئے باپ کا قتل کر دیتا ہے۔

اسی طرح ایک اور واقعہ میں داعشی نوجواں اپنے ماموں کو قتل کر دیتا ہے، کیونکہ ماموں میجر راشد ابراہیم الصفیا سعودی سکیورٹی اداروں کے ہاں کام کرتا ہے، جو کہ داعش کی نظر میں کفر ہے۔ ایسے کئی واقعات تاریخ میں رقم ہوچکے ہیں، اگر سعودی عرب میں ابن تیمیہ، بنو امیہ اور وہابیت و نجدیت نہ ہوتی تو امریکہ کبھی بھی داعش جیسی خونخوار تنظیم نہ بنا پاتا، امریکہ کبھی بھی نجدیت کو رواج نہ دیتا اور سعودی عرب کبھی بھی اس کی حمایت نہ کرتا۔ آج جو افراد پاکستان میں کافر کافر کے نعرے لگا رہے ہیں یا پاکستان کو کفریہ آئین قرار دے رہے ہیں، یہ بنوامیہ اور ابن تیمیہ کی ناخلف اولاد ہے۔ یہ داعش کے حامی ہیں۔ اگر ان کو لگام نہ دی گئی تو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کا کونہ کونہ زخم آلود ہوگا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .