۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا ڈاکٹر عباس مہدی حسنی

حوزہ/ اسلام بزورِ شمشیر نہیں پھیلا۔ بلکہ اس کی ترقی کا سبب پیغمبر کی مستحکم سادگی، تواضع و انکساری'خود خواہی کا فقدان  'عدل و انصاف میں دقت نظر اور دوستوں و پیروکاروں سے محبت اور احترام تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،شاتم رسول اور دشمن قرآن مجید ،مرتدوسیم رشدی کے خلاف قم المقدسہ سے ایک احتجاجی جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے ہندوستان کے برجستہ عالم دین و محقق حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا ڈاکٹر سید عباس مہدی حسنی نے کہا کہ ”حضرت محمد (ص) ہندو دانشوروں کی نظر میں “ کے موضوع پر مقالہ خوانی کے لئے دعوت دی۔ آپ نے فرمایا کہ خداوندعالم نے صرف پیغمبر اکرم (ص) کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا جنہوں نے محبت اور انسانی حقوق کا پیغام دیا۔ خداوندعالم نے آپ کو مقام محمود پر قائم فرمایا اور خود ان کی تعریف کی ہے۔ اگر کوئی پیغمبر(ص) کی تعریف کرتا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ضمیر زندہ ہے۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے بعض دانشوروں جیسے سوامی برج نارائن سنیاسی، کالکی اوتار کے مصنف پنڈت ویر پرکاش اپدھیائے، سوامی لکشمی شنکراچاریہ اور گاندھی جی وغیرہ کے ان بیانات کو پیش کیا جس میں انہوں نے پیغمبراکرم(ص) کی عظمت بیان کی ہے۔

ڈاکٹر سید عباس مہدی حسنی صاحب نے بابائے ہندوستان جناب مہاتما گاندھی جی کا قول نقل کیا: "اسلام اپنے انتہائی عروج کے زمانے میں تعصب اور ہٹ دھرمی سے پاک تھا اور دنیا سے خراج تحسین حاصل کئے کیوں کہ اسلام دینِ باطل نہیں ہے۔ ہندوؤں کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی میری طرح اس کی تعظیم کرنا سیکھ جائیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام بزورِ شمشیر نہیں پھیلا۔ بلکہ اس کی ترقی کا سبب پیغمبر کی مستحکم سادگی، تواضع و انکساری'خود خواہی کا فقدان 'عدل و انصاف میں دقت نظر اور دوستوں و پیروکاروں سے محبت اور احترام تھا۔ حضرت محمد عظیم پیغمبر اور ایک بہادر انسان تھے۔صرف خدا سے ڈرتے تھے آپکی رفتار گفتار کے مطابق ہوتی تھی۔کبھی دولت کو اختیار نہیں کیا جب کہ اگر چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے۔ میں اس ضمن میں یقین سے بھی آگے گذر چکا ہوں کہ اسلام ان دنوں تلوار کے زور پر نہیں پھیلا بلکہ اس کی پاکیزگی اور قربانی دینے کا اعلٰی ترین جذبہ اس کے پھیلنے کا موجب بنا ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان تھک انداز میں اپنا فریضہ سرانجام دیا ، انہیں بہترین دوست اور امتی ملے جو بلاخوف اللہ پر حتمی یقین کے ساتھ ان کے دین کے مشن کو لے کر چلے"۔ان کے صفات نے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیا تھا۔ اسلام جس نے اندلس کو مہذب بنایا۔ اسلام جو مشعلِ ہدایت کو مراکو تک لے گیا۔ اسلام جس نے اخوت کا درس دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے تمام لیڈروں اور فاتحین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے حالات زندگی محمد سے زیادہ اچھے اور سچے ہوں۔ ( اقتباس از کتاب مہاتما گاندھی کی شہادت)۔

اسکے بعد مولانا عباس مہدی حسنی صاحب نے سوامی لکشمی شنکراچاریہ جی کی بات اس طرح نقل کی : قریش جنہوں نے آپ (پیغمبر محمد) پر اور مسلمانوں پر بھیانک ظلم کئے تھے فتح مکہ کے دن تھر تھر کانپ رہے تھے کہ آج کیا ہوگا لیکن آپ نے انہیں معاف کرکے گلے لگا لیا۔

آپ نے گاندھی جی کے علاوہ دیگر ہندو دانشوروں کے جملات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کا آخری پیغام دنیا میں صداقت اور امن و امان قائم کرنا اور دھشتگردی کی مخالفت ہے لھہذا اسلام کو تشدد اور دہشتگردی سے جوڑنا سب سے پڑا جھوٹ ہے (اقتباس از اسلام آتنک یا آدرش )۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .