۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای بھیک پور ہند میں "قرآن وامام حسینؑ" پروگرام

حوزہ/ مولانا ناظم خیرآبادی: اگر دل میں اہل بیت ہیں تو قرآن بھی ہے اور اگر دل میں قرآن ہے تو اہل بیت بھی ہیں دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بہار کی سرزمین پر جب حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای قائم ہوا تو پھر ہرسال ٢٩صفر سے۴ربیع الاول تک اس عنوان پربھیک پور میں پروگرام منعقد ہوا  کرتا ہے، اس پروگرام کایہ اہم عنوان اپنے بہترین شان و شوکت کے ساتھ اس سرزمین پر منعقد ہوتا ہے جسمیں،ایک قاری قرآن سب سے پہلے تلاوت کرتاہے،پھرایک ناظم نظامت کو ہرروز دیے گیے مصرعہ پر شعر پیش کرتا ہے اور تحلیل گر اپنے جزئی موضوع پر مطالب کوپیش کرتاہے پھر خطابت اور نوحہ و ماتم ۔

حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای بھیک پور ہند میں "قرآن وامام حسینؑ" پروگرام کا ۱۴واں دور

اس سال کے اس عنوان پر اہم خطیب مترجم مفاتیح الجنان مولانا ناظم خیرآبادی تشریف لائے اور اپنے اس موضوع پر سامعین کے قلوب کو روشن اور منورکیا۔

حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای بھیک پور ہند میں "قرآن وامام حسینؑ" پروگرام کا ۱۴واں دور

یقینا! کربلا قرآن کی عملی تفسیر ہے، تفسیر دو طرح سے ہوتی ہے ایک تفسیر جو رائج ہے، کاغذ پر لکھی جاتی ہے، ایک آیت کے ذیل میں ایک مفسر اور ایک عالم اس آیت کی وضاحت کرتا ہیکہ اس آیت سے مراد کیا ہے، یہ ایک طریقہ ہے تفسیر کا، اہل سنت اور شیعہ علما نے بہت سی تفسیریں تحریر کی ہیں، بہر حال تفسیر کے اس قسم کی ضرورت ہے اور ہر زمانے اس طرح کی تفسیر منظر عام پر آنی چاہیئے ، علامہ طباطبائی کہ جنہوں نے اب تک لکھی جانے والی تفسیروں میں سب سے بہترین تفسیر لکھی ہے کہ جس کا نام تفسیر المیزان ہے،فرماتے ہیں کہ قرآن کے لیے ہر بیس سال کے بعد ایک نئی تفسیر کی ضرورت ہے، کیوں ضرورت ہے؟ اس لیے کہ زمانہ تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے، حالات بدل رہے ہیں، ترقی ہو رہی ہے، نئے نئے موضوعات پیدا ہو رہے ہیں، تقاضے بدل رہے ہیں، بیس سال پہلے کوئی تقاضا تھا تو اب کوئی تقاضا ہے اور قرآن کو ہر زمانے کے تقاضوں کا جواب دینا ہے، معصوم نے فرمایا: ''القرآن یجری مجری الشمس و القمر،، نئی تفسیر کی ضرورت ہے خداوندعالم نے قرآن کودلوں پرنازل کیا ہے،قرآن لوح محفوظ سے نکل کر تو قلب نورانی پیغمبر پر آگیا، پیغمبر نے اس کی تعلیم بھی فرما دی لیکن یہ قرآن کاغذوں سے نکل کر میرے اور آپ کے دل تک بھی آنا چاہیئے، اگر قرآن کاغذ سے کاغذ میں منتقل ہوتا رہے اور ہمارے دلوں میں نہ آئے تو قرآن کاغذوں میں گھومتا رہے گا لیکن ہم ہدایت سے محروم رہیں گے گویا خدا کو پہلے سے علم تھا، چوں سابقہ آسمانی کتابوں کا بشر نے جو حال کیا،اس آسمانی کتاب کے بارے میں بھی خدا کو علم تھا کہ لوگ قرآن کو کاغذوں میں ہی گھماتے رہیں گے اپنے دلوں میں نہیں لائیں گے لہذا خداوند عالم نے ایسا انتظام کی کہ قرآن کا ایک نسخہ لفظی نازل کیا کہ یہ الفاظ ہیں جو تمہاری زبانوں پر جاری رہیں گے ، انھیں بے شک کاغذوں پر لکھتے رہو ان کی تفسیر کرتے رہو، ان کی تلاوت کرتے رہو، ان کو لحن کے ساتھ پڑھو، ان کو صوت کے ساتھ پڑھو،اس کو مردوں کے لیے پڑھو، ختم قرآن کا جلسہ رکھو،اس کے ساتھ جو کرنا ہو کرو لیکن اس قرآن کا تمہارے دلوں میں آنا مشکل ہے لہذا خدائے متعال نے ساتھ میں قرآن کا ایک اور نسخہ بھی تدوین فرمایا، قرآن کے ساتھ معصوم کوبھی خلق فرمایا، اگر کوئی پوچھے کہ معصوم کس کو کہتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ معصوم قرآن کی مجسم تصویر کو کہتے ہیں، اگر قرآن کو کوی مجسم کرنا چاہے، آرٹسٹ ہوتے ہیں جو کسی بات کو تصویر کی زبان میں لاتے ہیں مثلا محبت کی تصویر پیش کرتا ہو تو دل بناتے ہیں جب کہ محبت جسمانی چیز نہیں ہے ہدایت بھی جسمانی چیز نہیں ہے، نورِ قرآن بھی جسمانی چیز نہیں ہے معنویت بھی جسمانی چیز نہیں ہے لیکن اگر خدا کسی آرٹسٹ کو کہے کہ تم قرآن کی تصویر بناو تو کسی آرٹسٹ سے نہیں بنتی، کوئی ہنرمند ایسا پیدا ہی نہیں ہوا ہے بلکہ خدا نے فرمایا کہ وہ سب سے بڑا آرٹسٹ میں خود ہی ہوں، میں خود ہی اس کی تصویر بنا سکتا ہوں لہذا فرمایا کہ ایک طرف میں نے قرآن نازل کیاتو ایک طرف میں انسانِ کامل پیدا کیااور پھر پیغمبر نے فرمایاکہ قرآن و اہلبیت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے، نہیں ہو سکتے یعنی نہیں ہو سکتے، اگر کوئی کرنا بھی چاہے تو یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے، کسی مقام پر ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے، کسی منزل پر ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے،کیوں جدا نہیں ہو سکتے؟ اس لیے کہ دو حقیقتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو نسخے ہیں لہذا اگر کوئی اہلبیت کو چھوڑ دے تو قرآن بھی اس سے الگ ہو جائے گا، اب وہ خوش نہ کہ میری جیب میں تاج کمپنی کا قرآن ہے میرے گھر کے تاق پر قرآن کی ایک جلد پڑی ہوئی ہے، ذرا نہج البلاغہ اٹھا کر دیکھئے کہ، اگر دل میں اہل بیت ہیں تو قرآن بھی ہے اور اگر دل میں قرآن ہے تو اہل بیت بھی ہیں دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔

حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای بھیک پور ہند میں "قرآن وامام حسینؑ" پروگرام کا ۱۴واں دور

حسینؑ کو اگر سمجھنا ہے تو تاریخ کے ساتھ ساتھ قرآن میں بھی دیکھنا ہوگا، قرآن بتائے گا کہ حسینؑ کیاہیں اور حسینؑ بتائیں گے کربلا کیا ہے کربلا میں کیا ہوا اور کیوں ہوا؟ قرآن اور عاشورہ کا رابطہ، قرآن اور کربلا کا رابطہ ۔امام حسین علیہ السلام کا ایک بہت ہی مشہور خطبہ ہے بنام خطب المنی لوگوں کو اکٹھا کرکے فرمایاکہ: میں جو کچھ کہتا ہوں سنو، سمجھو اور لکھو اور جب حج سے فارغ ہو کر اپنے اپنے علاقوں میں واپس جاو تو ہر فرد کو چانچو، پرکھو اور تولو،اگر وہ ہماری بات سمجھنے کا اہل ہو تو ہماری بات اس تک پہونچا دو یعنی امام یہ فرما رہے تھے کہ ہر ایرا غیرا ہماری بات سمجھنے کے قابل نہیں ہے، (ہیں ایسے لوگ جن کو آج تک کربلا سمجھ میں نہیں آئی) ابھی یزید بر سر اقتدار نہیں آیا  تھا، ایک مختصر سی تمہید کے بعد فرمایا: مجھے پہچانو! میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جس کے فضائل سے قرآن بھرا ہے، امیرالمومنینؑ کے ایک ایک فضائل کا تذکرہ کیا اور ان سے یہ بھی کہا کہ جہاں مجھ سے غلط بیانی ہو جائے اٹھ کر مجھے ٹوک دینا کہ یہ صحیح نہیں ہے، لیکن اتنے بڑے مجمع میں کوئی ایک بھی  ایسا نہیں تھا جو حسین سے کہتا حسین یہ بات غلط ہے، سب نے تسلیم کیا کہ ہاں ہم نے بھی یہ سنا ہے، اس کے بعد حضرت نے فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ خدا نے علمائے یہود پر کیوں لعنت بھیجی ہے؟ (قرآن میں مختلف اسباب ہوئے ہیں) خدا نے علمائے یہود کو اس لیے لعنت کی کہ ان کے سامنے لوگ منکرات اور فحشا کے مرتکب ہوتے تھے لیکن یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتے تھے، پھر فرمایا: اے خدا! تو شاہد رہنا کہ اس زمانے کا سب سے بڑا منکر یہ ہے کہ جو تخت حکومت پر برا فاسد ہے اور فرمایا: جو ایک فاسق و فاجر کو امت مسلمہ پر حاکم دیکھ کر خاموش رہے قرآن کی لعنت کا وہ حقدار ہے، پھر فرمایا:  خدایا! گواہ رہنا، میں متاع دنیا کے لیے نہیں نکلا ہوں، میں صرف تیرے حدود کی دفاع کے لیے، تیرے دین کی حفاظت کے لیے نکل رہا ہوں۔:  اب ذرا غور کریں کہ قرآن کس طرح حسین کے قدم بہ قدم چل رہا تھا، قرآن آواز دیتا ہے کہ  ''وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ امَّة یَدْعُونَ الَی الْخَیْرِ وَیامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ واوْلَئِکَ ھمْ الْمُفْلِحُونَ''  حسین نے فرمایا: میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے نکل رہا ہوں، قرآن نے جسے خیر امت کہا ہے وہ میں ہوں اور میرے اصحاب اور میرے اہلبیت ہیں۔ قرآن اور حسین دونوں ساتھ ساتھ کربلا آئے اور ایک لمحہ اور ایک پل کے لیے بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے، اسی لیے حضرت ام سلمہ نے جب حسین کے قاتلوں کو مدینہ میں دیکھا تو کہا کہ تم لوگوں نے قرآن کو شہید کر دیا، تم نے انبیا شہید کئے۔ جب ان لوگوں نے بڑے تعجب سے پوچھا: ہم نے قرآن کب شہید کیا؟ تو فرمایا: کیا حسین قرآن نہیں ہیں۔ حسین قرآن مجسم ہیں، حسین کے اہلبیت اور اصحاب قرآن مجسم ہیں،یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ حسین کربلا جائیں اور قرآن کربلا نہ جاتا، خدا گواہ ہے کہ قرآن کربلا میں موجود ہے، جب اہل بیت کا کوئی جوان شہید ہوتا، گویا قرآن کا ایک پارہ شہید ہوتا، جب کوئی چادرچھینی جاتی،جب کوئی خیمہ جلتا تو گویا قرآن کی سورتوں کو آگ لگائی جاتی، عزادارو! آج اگر قرآن کسی مسلمان کی نظروں کے سامنے گر جائےتو وہ بے چین ہو کر دوڑتا ہے، اسے احترام سے اٹھاتا ہے، چومتا ہے، آنکھوں سے لگاتا ہے کربلا کی سرزمین پرحسینؑ پشت فرس سے نیچے گرے یعنی قرآن زمین گرا، لیکن اتنے مسلمانوں میں کوئی ایک بھی نہ تھا جو آگے بڑھ اس گر تے ہوئے قرآن کو اپنی آغوش میں لیتا، ہاں ایک دکھیاری ماں  تھی جس نے اس قرآن مجسم کو اپنی باہوں میں لیا اور آواز دی ولدی ولدی ارے میرے لال! تجھے ظالموں نے ذبح کیا بھوکہ پیاسہ مارڈالا

حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای بھیک پور ہند میں "قرآن وامام حسینؑ" پروگرام کا ۱۴واں دور

تبصرہ ارسال

You are replying to: .