تحریر: گلزار جعفری
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نیلے آسمان کے نیچے، سفید بادلوں کے درمیان، سرد موسم اور بھینی بھینی خوشبوؤں کی معطر فضاءوں نے شہیدوں کا استقبال کیا، خبروں میں بتایا گیا کہ حادثہ ہوا منظر غمناک تھا دل دہلا دینے والا رونگٹے کھڑے کردینے والا یہاں تک کے ملت ایران بالخصوص اور ملت تشیع بالعموم لرزہ براندام ہوگئی، ہر شریف آدمی بشریت کے تقاضے کے تحت اشکبار ہوگیا ، مگر جسے ہم حادثہ کی تعبیر سے یاد کرتے ہیں وہ شہادت در حقیقت شہادت کا الہی نظام ہے جو کبھی زمینوں پر تو کبھی آسمانوں پر کیا جاتا ہے، سفید برفیلی پہاڑیوں میں خون کی سرخی سے لکھی جانے والی تحریر حریت پسند نگاہوں نے پڑھی تو شفق کے ماتھے پر سجی خون شہداء کربلا کی لالی و سرخی کا یہ وہ صدقہ نظر آیا جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے، صاحب کردار عظیم ، بستر علالت پر دم نہیں توڑتا سفر شہادت کا سفیر بنتا ہے یا راہ شہادت کا راہ گیر کہلاتا ہے ۔
مِدَادُ الْعُلَمَاءِ عَلَى دِمَاءِ الشُّهَدَاءِ"(1).
کے عقیدہ کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے، مگر صدر ابراہیمی کا قاضی القضات کے عہدے سے صدارت کی سفارت اور پھر شہادت پر اختتام انکے قلم کی روشنایی اورجسم نازنیں کے ٹکڑوں کا فضاووں میں بکھرنا انکے فیصلوں کی عبارات آرائی ہے جسے چشم بینا سے دیکھا جا سکتا ہے۔
عظیم عہدوں اور منصوں کا استحقاق رکھنے والے صدر ابراہیمی اپنے آپ کو اسم با مسمی ثابت کر گیا وہی عزم ابراہیمی، وہی صفت کاسر الاصنامی، وہی پرستار توحیدی، اور وہی حوصلوں کی لمبی لمبی اڑان کے جس نے میدان شہادت زمیں کو نہیں آسمان کو منتخب کیا۔
جس کے لہجہ کی دھمک یو این اور ( U N O ) کی پارلمینٹ میں سناءی دیتی ہے جو اپنے خطاب میں عظمت قرآن مجید اس طرح بیان کرتا ہیکہ تاریخ کو ایک بیمار و ناتواں کی زنجیر کی جھنکار سنائی دینے لگتی ہے تکلم کی دہلیز پر قدم زن ہو کر خاک پایے عابد بیمار کو سرمہ گیں کرکے آنکھوں میں عزم سجادیہ کی روشنی، چہرے پر وجہ اللہ کے نور کی چمک کی خیرات کا اثر اور شہادت میں قطرہ خون کربلا کے ابال کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
صدر رہیسی کا پارلمینٹ میں تاریخی خطاب دربار شام کی یاد تازہ کردیتا ہے زمان و زمین کا فرق ضرور ہے مگر نسلوں کا تسلسل حوصلوں کی اڑان کا پتہ ضرور دیتا ہے جسکی دلیل اسکے ماتھے پر سجے سیاہ عمامے کے تاج کرامت سے لگایا جا سکتا ہے۔
وہی للکار ، وہی کردار ، وہی آواز، وہی ساز ، وہی راز ، وہی نپی تلی لفظیات ،وہی تکلم کے آداب، وہی وہی لب کشائی کا سلیقہ ایسا لگتا ہے جیسے سید سجاد ع کا کوئی چھوٹا سا غلام ہے جو اپنے آقا کی سیرت و کردار کو اپنے قالب میں ڈھال کر وقت کے یزیدوں کے سامنے ہم کلام ہے جسے نہ اسیری کا ڈر ہے نہ موت کا خوف و ہراس، وہ بیان ہر وقت کے خطیب کے لیےمشعل راہ ہے کی جب عصمت کے قدموں تک رسائی نہ کر سکوں تو انکی خاک قدم کے ذروں کو ہی سرمہ گیں کے لائق جان لو تاکہ کاسہ طلب میں شچاعتوں اور شہا دتوں کے حسین قطرات سمو دیے جائیں۔
آٹھویں صدر کا آٹھویں آقا کی ولادت کے روز داعی اجل کو لبیک کہنا اتفاق نہیں ہے شہادت کی تکمیل کا راز ہے۔
جس تارخ ولادت امام رضا علیہ السلام پر صدارت کا آغاز کیا اسی تاریخ ولادت پر اپنے ارادوں کی بساط کو لپیٹ لیا کیا یہ اتفاق ہے؟
کرامت فجر کے عشرے کے عاشور کو جام شہادت نوش کیا یہ بھی اتفاق ہے ؟
اگر یہ سب اتفاقات ہیں تو کتنی حسین ہے وہ حیات جسکی تکمیل میں اتفاقات نے حادثہ کا لباس زیب تن کیا اور کاتب تقدیر کے قلم قدرت نے اسے منصوبہ شہادت کا عنوان قرار دے دیا
گرچہ باقی رہنے والوں کے لیے یہ داغ غم ہے حکومت کا بظاہر عظیم خسارہ ہے مگر وعدہ الہی کا دلاسہ حکومت کے قلب نازنیں کو ٹھنڈا کردیتا ہیکہ
مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ(2)
ہم کسی آیت کو محو نہیں کرتے جب تک کے اسکے جیسی یا اس سے بہتر تمہارے دامن مراد میں نہ رکھ دیں
یقینا کاسہ خلوص پھیلایے ہویے جب وقت کا عظیم رہبر بارگاہ کریم میں خضوع و خشوع کے ساتھ لب دعا کو متحرک کریکا تو اس ایران کے قرآن میں پھر کسی آیت عظمی کا نزول اجلال ہوگا
چونک عصمت کے دہن سے سند ملی ہے
(صائنا لنفسه)(3)
اس کا نفس اسیر ہوس نہیں ہو سکتا جو مسند مرجعیت پر جلوہ افروز ہو
ملت باشعور ، شوق لقاء الہی میں سرشار، ہمیشہ کشکول شہادت پھیلایے ہویے ایرانی جوانوں کے لیے یہ خبر انا للہ کا آغاز اور و انا الیہ راجعون کا سہارا تھا
یقینا ہر شئ کی بازگشت اس رب رحیم کی جانب ہے خوش نصیب ہیں وہ نفوس طیبہ جنکی پیشانی پر سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ، آپ انہیں رکوع، سجود میں دیکھتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں
کا نقش شہادت کندہ ہوثایے اور جسم کا ہر ٹکڑا فضا میں بلند ہو کر لبیک یا حسینا کی صدا ہی نہیں دے رہا تھا بلک حبیب و سعید و زہیر کے لفظوں کی ترجمانی کر رہا تھا کی اے شہداء حریت لو غلاموں نے آپ کے لبوں سے نکلے ہوئے لفظوں کے مفاہیم کو مصادیق کی عبارتوں میں ڈھال کر اپنے آقاؤں کی پکار پر سر نیاز خم کردیا عزم اصحاب حسینی کی سچاءی دنیا کو نظر نہ آتی اگر اس قسم کے حادثات منصوبہ شہادت کی تکمیل کا سر نہاں نہ بنتے
اس حادث جانکاہ پر تعزیت پیش کروں یا شہادت عظمی کی تبریک میرے قلم عقیدت کے قدموں میں ارتعاش ہے
رسم دنیا نبھاووں تو غیور ایرانی قوم اور صبور ملت تشیع اور اسکے عظیم رہبر کی بارگاہ عالی وقار میں اپنے کوتاہ قلم ،پستہ قد عبارتیں، اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو جوڑ توڑ کرکے تعزیتی پیغام کا سیاہ پرچم غم پیش کروں
لیکن اگر نظام الہی، قضا و قدر حادثات کے دامن میں منصوبہ سازیوں کی باریکیاں پھر منزل عملی مین شہادت کی تکمیل کے راز سربستہ پر نظر ڈالوں تو تبریک و تہنیت پیش کرنے کو جی چاہتا ہیکہ کتنے خوش نصیب تھی وہ نفوس طیبہ جنھوں نے اپنے ملک و ملت اور تشیع کے وقار و عظمت کے لیے زمین ظہور کو ہموار کرنے کے لیے فضاووں کے راستہ طے کرتے ہویے آغوش شہادت میں پناہ گزیں ہو گیے اور لبوں پر نغمہ آیت جلی؛ وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ( 5) اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔
یا آیت ثانیہ کی تجلی کا عکس عکیس؛ وَلَا تَقُولُواْ لِمَن يُقْتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتٌۢ ۚ بَلْ أَحْيَآءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ(6)
تمہیں حیات شہید کا شعور نہیں ہے، اسکے لیے یہ موت نہیں بلکہ شہد کے شیریں جام ہیں جنہیں نوش کرنے کے بعد لبوں پر تبسم کی لکیر بکھر جاتی ہے خواہ عمر میں ششماہا ہی کیوں نہ ہو تیرہ برس کے تکلم کی تفسیر چھ ماہ کے لبوں سے ہونے لگے تو امت کو ولا تحسبن اور ولا تقولوا کے پیغام ابدی کو سمجھ لینا چاہیے، کاش امت رموز قرآن سے آشنا ہوتی تو کتاب تبیان کا بیان مبین آئین حکومات اسلامیہ ہوتی، مگر افسوس کے یہود و نصارٰی کے تلوے چاٹنے والے کعب الاحبار کے پرستار کیا جانیں کے شہادت کیا ہے اور تلاوت حقیقی قرآن مجید کیا ہے۔
رب کریم شہداء کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل پر اجرجزیل عطا فرمائے- آمین یا رب العالمینْ
حوالہ جات:
(1)من لا يحضره الفقيه: 4 / 398، للشيخ أبي جعفر محمد بن علي بن حسين بن بابويه القمي المعروف بالشيخ الصدوق، المولود سنة: 305 هجرية بقم، و المتوفى سنة: 381 هجرية، طبعة انتشارات اسلامي التابعة لجماعة المدرسين، الطبعة الثالثة، سنة: 1413 هجرية، قم / إيران.
(2)( سورۃ البقرة، آیت 106)
(3)وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج 27 - الصفحة 131
(3)(سورۃ الفتح، آیت 29)
(4)سورۃ الفتح، آیت 29
(5)سورۃ آل عمران، آیت 169
(6) سورۃ البقرة، آیت 154