تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی| قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں، فکر میں تحریک نہیں، قدرٍ توحید نہیں، عمل میں ترجمانیٔ آیات نہیں اور سورۃ الزلزال کی آیات مبارکہ نمبر 8-7 پر نظر نہیں "پھر وہ دیکھ لیں گے اگر ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی۔ اور اپنی بدی بھی دیکھ لیں گے گو وہ ذرہ برابر ہی کی ہو۔"
مندرجہ بالا نکات کی جانب توجہ مبذول کرانے کا اغراض و مقاصد یہ ہے کہ بانیٔ انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران، آیت اللہ روح اللہ سید موسوی خمینی رحہ کی 34 ویں برسی کے موقع پر کشمیر سے کنیا کماری، اودھ سے دکن تک، بہار سے بنگال اور یوں کہا جائے کہ بر صغیر، یوروپ، امریکہ، افریقہ اور عرب و مشرق وسطیٰ ملکوں میں مجلس، اجلاس، سیمنار، سمپوزیم، جلوس، ریلی، جلسہ، ویبنار، یوٹیوب، کلاؤڈ اور زوم وغیرہ پر پروگراموں میں بہترین مقررین و مبصرین امام خمینی رحہ کی زندگی، ان کے کمالات، انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی، فضیلت، عظمت اور افادیت پر پرمغز روشنی ڈالی اور ناظرین و سامعین کو آشنا کرایا۔ صحافیوں، کالم نگار، مضمون نگار، اور دانشوران نے بھی اپنے اپنے قلم کو دوڑایا ساتھ میں شعراء کرام نے بھی اپنے کلام سے محظوظ کرایا اور ابھی بھی نشستوں کا دور جاری ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل جاری و ساری ہے۔ دنیا تو سب ہمیں عاشقان خمینی رحہ پکار رہی ہے۔ کیا ہم بھی انھیں اس دوران ان کی صفات کو پہچانا اور عمل میں لائے؟ کیا وہی سوال ذہن میں گردش کرتا ہے کہ کہاں وہ اور کہاں میں؟
امام خمینی رحہ کی وہ شخصیت ہے کہ جن کا عمل، علم، دوستی، دشمنی، لینا، ترک کرنا، بات کرنا، خاموش رہنا، قیام، رکوع، سجود، صبر، شکر، جلاوطنی، صلح، جنگ اور قول و فعل خالص خدا کے لیے رہا ہے۔ وہ علم الٰہی سے مزین و مالا مال تھے۔ ان کی منزلیں ایسی خوبیوں کا خزانہ ہے جسے لوگوں کے لیے بیان اور وضاحت کی جانی چاہیے لیکن اس سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک خوبصورت، علمی، اور حکمت سے بھر پور حدیث نقل کی جارہی ہے جو مندرجہ ذیل میں برسی منانے والوں، برسی کے انعقاد کرنے والوں اور اس میں کسی طرح کی شمولیت حاصل کرنے والوں کے لیے پیش خدمت ہے:
"اس لحاظ سے عوام الناس اللہ سبحان و تعالٰی کی صفات کے باطن کو سمجھنے سے قاصر، اور جس طرح وہ اللہ پاک کی صفات کے جوہر تک رسائی سے قاصر ہیں، اسی طرح وہ اس کے رسولوںؐ کی صفات کی گہرائی کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور جیسا کہ وہ اس کے رسولؐ کی باطنی صفات کو جاننے سے قاصر ہیں، اسی طرح وہ آئمہ معصومین علیہم السلام کے اوصاف کو جاننے سے بھی قاصر ہیں۔ اور جس طرح آئمہ کو اس طرح نہیں جان سکتے جیسا کہ انہیں جاننا چاہیے، اس طرح وہ مومنین کی حقیقت کو اس طرح پہچاننے سے بھی قاصر ہیں جیسا کہ ان کو جاننا چاہیے۔" (میزان الحکمۃ جلد 1، 390: 1400) اور جیسا کہ حساس قارئین معاشرے سے لیکر ملک و بین الاقوامی سطح پر مشاہدہ کر رہے ہیں۔
حضرت امام خمینی رحہ نے گُفتار سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے بیداری پیدا کی۔ ان کا جہاد صرف سیاسی، سماجی، فکری اور اقتصادی نا تھا بلکہ ان تمام جہادوں کے ساتھ اندرونی جہاد بنفس بھی تھا۔ جس زمانے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ امریکہ کے خلاف زبان کھولی جاسکتی ہے، امام خمینی رحہ نے بڑی طاقتوں کے بارے میں پائی جانے والی سوچ تبدیل کر کےانہیں ان کی اوقات یاد دلا دی اور ثابت کر دیا کہ دنیا کی طاقتوں پر ضرب لگائی جا سکتی ہے یہ حقیقت سویت یونین کی تباہی اور امریکہ کے موجودہ حالات ڈوبتے ٹائٹنیک کے مانند ہے جو اپنے آپ میں خود گواہ ہے۔
یہ واقعہ بھی ہندوستانی علماء کرام، ذاکرین، مقررین و حریت لیڈران کے لیے قابل توجہ ہے کہ پاکستانی فوجی جنرل اور چھٹے صدر، محمد ضیاء الحق امام خمینی رحہ سے ملنے کے لیے تہران گئے۔ ضیاء الحق نے ملاقات کے دوران پاکستان میں انقلاب برپا کرنے کے لیے طریقۂ کار دریافت کیا۔ امام خمینی رحہ نے مشورہ دیا کہ پاکستان میں انقلاب لانے سے پہلے آپ کو اپنے آپ میں انقلاب لانا ہوگا۔ یہ اشارہ ان علماء کرام، ذاکرین، مقررین، واعظین، شعراء کرام کے لیے ہے جو صرف منمبر، محراب سے اپنی گفتگو، تقریر اور واعظ سے انقلابی بنانا چاہتے ہیں۔ کیا امام خمینی رحہ نے گفتار سے شاہی خاندان اور ان معاون امریکہ کو ایران سے باہر کیا؟ اول اور اہم کردار رہاہے۔
امام خمینی رحہ کے کردار، امانت داری، دیانتداری، ایمان اور توحید کے حوالے سے ایک معقول و مناسب حوالہ موجودہ حالات میں دینا نہایت ضروری ہے کہ فصل زمستان بود۔ کسی تاجر نے امام خمینی رحہ کو زیادہ تعداد میں کمبل دیا یہ کہہ کر کہ اس کمبل کو علماء کرام کے درمیان تقسیم کر دیں گے۔ کثیر تعداد میں کمبل دیکھ کر امام خمینی رحہ کے خادم نے ایک کمبل دینے کا تقاضا کیا، لیکن نہیں دیا، دوسری دفعہ بھی خادم نے اپنے آپ کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے کمبل مانگا، مگر اس دفعہ بھی امام نے مسترد کردیا۔ خادم نے مسلسل تیسرے دن بھی کمبل کے لیے مطالبہ کیا تو تاجر کے کمبلوں میں سے ایک عدد بھی نہیں دیا بلکہ اپنا ذاتی کمبل سپرد کر دیا۔ اب یہ بھی تذکرہ کرنا لازمی ہے کہ خادم نے کہا کہ میں آپ کی خدمت کرتا ہوں۔ امام خمینی رحہ نے جواب دیا کہ تم خدمت کرتے ہو لیکن عالم تو نہیں ہو۔تاجر نے یہ کہہ کر کمبل دیا تھا کہ اسے علماء کے درمیان تقسیم کریں گے۔ شب کے درمیان جب خادم کی آنکھ کھلی تو امام خمینی رحہ کے کمرے کی لائٹ جلتی دیکھی، گھبرا کے کھڑکی سے اندر کی طرف جھانکا تو دیکھتا ہے کہ امام ٹھنڈک سے بچنے کے لیے اپنا عبا جسم پر ڈالے ہوئے ہیں۔ اور دستور کے خلاف کمرے کی لائٹ ٹھنڈک سے بچنے کے لیے جلا رکھی ہے۔
کہانی کا اخلاقی سبق یہ ہے کہ اگر کوئی چیز یا رقم جس کے لیے دی جائے وہ اسی حق یا ذات میں استعمال و خرچ کی جائے۔
مذکورہ بالا تحریر کے لب لباب پر ذہن میں گردش کرنے والے سوالات ہیں کہ کیا غرباء، بیواؤں، طلباء و طالبات، مدارس، مدرسین، مریض و مریضہ، ہسپتال، خمس، زکوٰۃ، فطرہ اور ترقیاتی کاموں وغیرہ کے نام پر جمع شدہ رقم اسی کام پر خرچ ہو رہا ہے جس نام پر رقم جمع کی جاتی ہے؟ کیا آیت اللہ روح اللہ سید موسوی خمینی رحہ کے کردار ان لوگوں کے پیش نظر ہے جو ان کی برسی میں شمولیت حاصل کرتے ہیں؟
کیا تمام مومنین و مومنات، عزاداران سید الشہداء، مقلدٍ رہبر کبیر، رہبر معظم سید علی خامنہ ای اور آیت اللہ سید علی حسینی سیستانی کے سامنے وہ دل سوز تصویر نہیں ہے جس میں خمینیٔ بہار کے لقب سے مشہور و معروف، حجت الاسلام والمسلیمین، مولانا سید محمد شبیب کاظم صاحب قبلہ کے پیر میں زنجیر اور بیماری کی حالت میں اسپتال کے بستر پر زیر علاج والی تصویر ہندوستان اور بیرون ممالک میں گردش کر رہی ہے۔ بہار وقف بورڈ کے عہدداران وقف جائیداد کی خرید و فروخت کر سرمایہ دار بنے بیٹھیں ہیں۔ مظلوم سید محمد کاظم شبیب صاحب قبلہ کی غلطی محض یہ ہے کہ وقف حرام خوروں کے خلاف امام کی جائداد کی حفاظت کی خاطر آواز بلند کی اور مومنین کے درمیان بیداری پیدا کرنے کی جائز طریقے سے مہم چلائی۔ آج یہ دیکھا جا رہا ہے کہ وقف جائیداد کی خرید و فروخت میں ملوث افراد اور اس جائیداد پر ناجائز قابض لوگ پولیس محکمہ اور عدالت کو گمراہیوں میں ڈال کر اپنے کالے کرتوت کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ضمیر فروش افراد سے مولانا موصوف کے خلاف غلط مقدمے دائر کروائے۔ عوام، پرائیویٹ یوٹیوب چینل اور مسلم پرنٹ میڈیا بھی حقیقت سمجھنے اور سمجھانے کے لیے امر با المعروف اور نہی عن المنکر کی پاسداری سے قاصر ہے جیسے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث ہے کہ اللہ، رسولوںؐ، آئمہ اطہار علیہم السلام، مومنین اور راقم الحروف یہ کہے کہ رہبر کبیر اور رہبر معظم کو سبھی آنکھ والے نہیں دیکھ سکتے اور سبھی ذہن والے نہیں سمجھ سکتے۔
آیت اللہ العظمٰی روح اللہ سید موسوی خمینی رحہ دراصل کربلا کی راہ کا ایک بزرگ سپاہی تھا، جس نے باطل قوت کے سامنے انکار کرنا، سلطانٍ حُریت حسینؑ ابن علیؑ سے درس حاصل کی، جس نے اولاد زہرہؑ ہونے کا حق و ثبوت پیش کیا، بے وطن رہا مگر ظالم کے سامنے جھُکا نہیں، دنیا کو ثابت کیا کہ جو انسان کربلا سے منسلک ہو جاتا ہے اسے پھر حق پرستی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ آج امام خمینی رحہ کا وہ آفاقی و ابدی شخصیت ہے کی کوئی شخص کے سامنے اپنے ملک کے نظام و مسئلے کا گلہ کریں گے تو وہ شخص ایک ہی لخت میں جواب دےگا "اس ملک کو خمینی جیسے انقلابی شخصیت کی ضرورت ہے۔"