تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
امام محمد باقرؑ نے فرمایا: حکمرانوں سے میل جل اور آمد و رفت سے دنیا کی محبت پیدا ہوتی ہے۔
باقرؑ آل محمدؐ اور زین العابدیںؑ
کس طرح زندہ رہے گویا ہے راز کبریا
کربلا کی ہر بلا ہر ابتلا کو جھیل کر
زندگی اٍن کی حقیقت میں ہے زندہ معجزہ
آپؑ کا اسم گرامی الہام خداوندی کے مطابق محمد اور القاب باقر، شاکر اور ہادی قرار پایا۔ علماء کرام کا اتفاق ہے کہ آپؑ کے پدر بزرگوار اور مادر گرامی دونوں کی جانب سے علوی اور نجیب الطرفین ہاشمی تھے۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 120 و مطالب السعٔول، صفحہ 269) آپ امام منصوص، معصوم، اعلم زمانہ، اپنے عہد امامت میں سب سے بڑے عالم اور کائنات میں سب سے افضل تھے۔ علامہ ابن حجر مکی صفات، فضائل و عظمت بیان تحریر کرتے ہیں کہ آپؑ عبادت، علم اور زہد، تقویٰ میں زین العابدینؑ کی تصویرتھے۔ (صواعقمحرقہ، صفحہ 120)، اور علامہ محمد بن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہآپؑ کے صفائے قلب اور دیگر محاسن و فضائل اس درجہ پر فائز تھے کہ یہ صفات خود ان کی طرف انتساب سے ممتاز قرار پائے۔ (مطالب السؤل، صفحہ 269)۔
آج مومنین و مومنات اپنے پانچویں امام محمد باقرؑ ابن زین العابدینؑ کی شہادت منا رہے ہیں اور اس سلسلے سے مجلسیں پڑتا کی جا رہی ہیں لہٰذا انھیں یہ لازمی طور پر آشنا ہونا چاہیے کہ آخر آپؑ کو باقر کیوں کہا جاتا ہے؟ در اصل باقر، بقرہ سے مشتق اور اسی کا اسم فاعل ہے اٍس کے معنی 'شق' کرنے اور 'وسعت' دینے کے ہیں۔ (المنجد، صفحہ نمبر 41) چونکہ علم کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہے اس لیے یہ بھی وضاحت کر دی جائے آپؑ اس لقب سے ملقب کیا گیا کہ آپ نے علوم و معارف کو نمایاں فرمایا اور حقائق احکام و حکمت کے وہ سربستہ خزانے کو ظاہر فرما دیئے جو لوگوں معلوم بھی نہ تھا۔ (شواہد النبوت، صفحہ نمبر 181) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جامعیت علمیہ کی وجہ سے بھی آپ کو یہ لقب دیا دیا گیا ہے۔ شہید ثالث علامہ نورُاللہ شوشتری کا کہنا ہے کہ حضرت محمد مصطفٰیؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ امام محمد باقر علوم و معارف کو اس طرح شگافتہ کر دیں گے جس طرح زراعت کے لیے زمین شگافتہ کی جاتی ہے۔ (مجالس المومنین، صفحہ نمبر 117)
امام محمد باقر علیہ السلام نے اسرار و رموز علوم و فنون کو اس قدر وسعت دی اور جلا بخشی اور ان کی اس طرح تشریح و وضاحت کی ہے کہ دوسرے افراد کی تاریخ میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ قارئین و عقیدت مندوں کے آشنائی ہوگی کہ عالم اسلام کے امام اعظم بھی آپؑ کے خرمن علم کے خوشہ چینوں میں تھے اور انہوں نے بھی آپ کے علوم سے استفادہ کیا ہے۔
شیخ مفید علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث، علم سنن، علم تفسیر قرآن، علم سیرت اور علوم و فنون ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدر امام محمد باقر علیہ السلام سے ظاہر ہوتا ہے وہ کسی اور ظاہر نہیں ہوا۔
کیا خانۂ خدا، مسجدیں صرف نمازیں ادا کرنے کی جگہیں ہیں؟ ایسا تصور کرنا اسلامی تاریخ کا فقدان اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی زندگیوں سے نابلد ہونا سمجھا جائے گا۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے علوم کی تعلیم و تدریس و نشر مسجد سے کی ہے۔ آپؑ میں تشریف لے جاتے تھے، لوگ جوق در جوق آپ کے مواعظ سے فیض حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ تعلیم و ترویج، علوم و فقہ اسلام آپؑ کی زندگی کا مقصد تھا۔ آپؑ نے اسی مقاصد پر زندگی بسر کی۔
عقل اللہ پاک کی نعمت ہے اور اس کو بہت محبوب ہے۔ امام باقرؑ فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم نے عقل کو پیدا کیا تو فرمایا کہ میں نے کوئی شئے پیدا نہیں کی جو عقل سے زیادہ مجھ کو محبوب ہو آور میں عقل کو کامل کرتا ہوں۔ اس شخص میں جس کو میں محبوب رکھتا ہوں اور انبیاء و اولیاء اور مثل ان کے ہیں۔ عقل کی پختگی کی صورت میں امر و نواہی صادر کرتا ہوں گویا عقل ہی ثواب و عذاب کا باعث ہے۔ غور و فکر، تفکر و تدبر کا مقام ہے کہ ہم لوگ علم و عقل کے لیے کتنی کوشش کرتے ہیں؟ کیا صاحب علم و عقل ہیں؟ اگر معاشرہ یہ دیکھے کہ کوئی نماز، مجلس یا تقریر زیادہ کرتا ہے تو دھوکہ نہ کھاؤ کیونکہ اس کو جزا یا سزا اس کی عقل کے مطابق ملے گی۔ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا عاقل کی نیند جاہل کی عبادت سے بہتر ہے۔
آج کے علماء کرام، ذاکرین و شعراء اہلبیت، مقررین، دانشوران، مفسرین و مبصرین قرآن، حفاظ، قاری صاحبان، مفکرین، و ادباء حکمرانوں کے پاس جانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور موجودہ طور و طریقہ سیرت بنتی جارہی ہے۔ ایسی سیرت پر لکھا اور بولا جا رہا ہے لیکن دبے اور دھیمی لہجوں میں۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ حکمرانوں کے پاس جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ حکمرانوں کے پاس میل جل اور آمد و رفت سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں۔ (1) دنیا کی محبت، (2) موت کی فراموشی اور (3) قلت رضائے خدا۔
سیاست سے دوری، ظالم و جابر حکمرانوں سے دور اختیار کر، امام محمد باقرؑ اپنے علمی سرچشمہ کے ذریعے السلام کو فروغ دے رہے تھے لیکن ملعون ہشام بن عبد الملک کو یہ بھی گوارا نہ ہوا اور آپؑ کو زہر کے ذریعہ شہید کرا دیا۔ آپ کی شہادت کی تاریخ 7 ذی الحجہ، 114 ہجری ہے۔ آپ کی جائے مدفن جنت البقیع، مدینہ منورہ ہے۔ (کشف الغمہ، صفحہ نمبر 93)