۸ تیر ۱۴۰۳ |۲۱ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jun 28, 2024
جامعۃ الزہراء (س) لکھنؤ کے تحت شہدائے خدمت کی یاد میں تعزیتی ریفرنس:

حوزہ/ جامعۃ الزہراء (س) مفتی گنج لکھنؤ میں شہدائے خدمت کی یاد میں ایک عظیم الشان تعزیتی اجلاس منعقد ہوا، جس میں جامعہ کی طالبات اور اساتذہ نے بھرپور شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ الزہراء (س) مفتی گنج لکھنؤ میں شہدائے خدمت کی یاد میں ایک عظیم الشان تعزیتی اجلاس منعقد ہوا، جس میں جامعہ کی طالبات اور اساتذہ نے بھرپور شرکت کی۔

تعزیتی اجلاس کی ابتداء میں جامعہ کی معلمات و طالبات نے شہداء کے درجات کی بلندی کے لئے قرآن خوانی کی اور اس سانحہ پر امام زمانہ (عج)، رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی، مراجع عظام اور ایرانی عوام کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کی۔

آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی انقلابِ اسلامی کا ایک اہم حصہ تھے، مقررین

تفصیلات کے مطابق، جامعۃ الزہراء (س) مفتی گنج لکھنؤ میں حالیہ دنوں دنیا سے رخصت ہونے والے شھدائے اسلام صدر مملکت ایران سید آیت اللہ ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ امیر حسین عبد اللہیان، امام جمعہ تبریز سید آل ہاشم اور دیگر شہداء کی یاد میں ایک تعزیتی اجلاس اور مجلس ترحیم کا انعقاد کیا گیا۔

تعزیتی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا، جس کے بعد استاد جامعۃ الزہراء (س)حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سعید الحسن نقوی صاحب نے اپنی دلچسپ اور مفید گفتگو میں شہدائے خدمت کے سوانحِ زندگی پر تفصیلی گفتگو کی۔

انہوں نے بیان کیا کہ امیر حسین عبد اللہیان کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا، لیکن ان کی غربت منزل کمال تک پہنچنے میں مانع نہ بن سکی، یہاں تک کہ آپ وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر امیر حسین عبد اللہیان سات سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے، عمومی طور پر جب کسی بچے کے والد اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تو تصورات زندگی اسکو تنزلی کی طرف لے جاتے ہیں، لیکن امیر حسین عبد اللہیان کی زندگی میں تنزلی کی جگہ بلندی نظر آتی ہے۔ آپ نے پہلے اپنے یہاں چند سال تحصیل علم کیا پھر اس کے بعد آپ نے تہران یونیورسٹی سے کسب علم کیا اور بہت سارے امور پر دسترس حاصل کی ۔

مولانا سعید الحسن نقوی نے کہا کہ ڈاکٹر امیر حسین عبد اللہیان کے بارے میں جو سب سے زیادہ قابلِ غور بات ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے غزہ کے مظلوموں کی حمایت اور امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

جامعۃ الزہراء (س) کے استاد حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا حسین مرتضیٰ کمیل صاحب نے شہداء کی پاکیزہ سیرت پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہداء نے خدا سے کیے ہوئے عھد کو وفا کیا۔

انہوں نے بیان کیا کہ شہید ابراہیم رئیسی کا تعلق ایک علمی گھرانہ سے تھا۔ آپ کا خاندان خدام الرضا ؑکے نام سے جانا جاتا تھا۔ آپ کے سر سے پانچ سال کی عمر میں باپ کا دست شفقت اٹھ چکا تھا، لیکن یہ یتیمی آپ کی کامیابی میں رکاوٹ نہ بن سکی ۔

مولانا نے شہید آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہید ابراہیم رئیسی بچپن ہی سے دینی خدمات کے لئے پیش پیش رہے۔ 15 سال کی عمر میں آپ ان نامور شاگردوں میں سے جانے جاتے تھے، جو انقلابِ اسلامی ایران کا ایک اہم حصہ تھے اور شہید بہشتیؒ نے دوران انقلاب کچھ ایسے بچوں کا انتخاب کیا تھا، جو مستقبل میں عظیم کارناموں کو انجام دیں گے جن بچوں میں سر فہرست صدر جمہوریہ ایران سید آیۃ اللہ ابراہیم رئیسیؒ تھے۔

انہوں نے شہید کی زندگی سے طلاب کے لئے سبق آموز نکات بیان کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح ایک طالب علم کو اپنے وقت سے استفادہ کرنا چاہیئے؟ شہید کی کل مدت حیات 63 سال تھی، لیکن اس 63 سالہ زندگی میں آپ نے ان کارناموں کو انجام دیا جو قابل بیان نہیں ہیں اور ان عہدوں کو سنبھالا۔ شہید کی زندگی 63 سال تھی، لیکن اس 63 سالہ زندگی میں آپ نے ان کارناموں کو انجام دیا جو لوگ طویل زندگی گزارنے کے بعد بھی حاصل نہیں کر پاتے۔

تعزیتی اجلاس سے استاد محترمہ عالمہ و فاضلہ خواہر کنیز مہدی نے نیز خطاب کرتے ہوئے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 169 کو اپنا سر نامہ سخن قرار دیا اور آیت مجیدہ کے ذیل میں کہا کہ شہید ہمیشہ زندہ و جاوید رہتا ہے اور آپ نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ شخصیت کے مرنے سے امور درہم برہم نہیں ہوتے، بلکہ ان امور کا ضامن پروردگار ہے۔

انہوں نے رہبرِ انقلابِ اسلامی ایران آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے تعزیت نامہ کو پڑھا اور ساتھ ہی ساتھ دشمن پالیسی کی طرف توجہ دلائی اور ہر لمحہ ہوشیار رہنے کے لئے متوجہ کیا اور مصائب امام مظلوم کربلا پر اپنی مجلس کا اختتام کیا۔

مجلس کا اختتام شھداء، مرحوم علماء و مؤمنین کے نام فاتحہ خوانی سے ہوا۔

آخر میں خداوند کریم سے شہدائے خدمت کے عظیم سانحہ پر ان کے لواحقین بالخصوص رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کو صبر جمیل اور ایران کے حفاظت کی دعا کی۔

مدرسہ جامعۃ الزھراء (س) کی ایک شاعرۂ اہل بیت ؑ خواہر امرین زہراء نے صدر جمہوریہ ایران شھید خادم الرضاؑ کی خدمت میں اشعار و نظم کی صورت میں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا:

اشعار

حق پہ جاں دینے کو تیار ھمیشہ تھے رئیس

قوم کا درد لئے دل میں ہمیشہ تھے رئیس

خدمت ِخلق کو تیار ھمیشہ تھے رئیس

رھبرِ حق کے وفا دار ھمیشہ تھے رئیس

صدر جمھوری مبارک ہو شہادت کا جام

ہیں کھڑے خلد میں حیدر لئے کوثر کا جام

نظم

اے شھید انقلابی تجھ پہ ہو میرا سلام

فاطمہ بھی کہہ رہی ہیں تجھ پہ ہو میرا سلام

مرد ِ آھن تم بنے تھے دشمنوں کے واسطے

اے شجاعت کے غضنفر تجھ پہ ہو ہو میرا سلام

تیرے الفاظوں ہی سے مرجاتے تھے دشمن تیرے

اے سپہ ِسالار مہدی تجھ پہ ہو میرا سلام

شاق ہے غم یہ تمہارا بھول پائیں گے نہ ھم

رونق بِاغ جمھوری تجھ پہ ہو میرا سلام

پھر سے تنہا ہوگیا رھبر زمانہ میں میرا

قلب ِرھبر قلب ِمومن تجھ پہ ہو میرا سلام

ہیں بقیع میں فاطمہ بے چین تیرے واسطے

اے تمناۓ علی تجھ پہ ہو میرا سلام

قبر پہ تیری ملک کا دیکھ رہا ہے ایک ہجوم

اے ملائک کے مسیحا تجھ پہ ہو میرا سلام

ہو چراغ فاطمہ (س )تم موت سے بجھنا محال

فاطمہ (س)کے دل کی دھڑکن تجھ پہ ہو میرا سلام

ضامن ِآھو کے خادم فخر جمھوری تھے تم

کہتی ہے امرین ہر دم تجھ پہ ہو میرا سلام

(امرین زہراء )

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .