حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان سے مولانا احسان عباس قمی مبارک پوری نے ہیلی کاپٹر سانحے میں شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہوئے ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کو زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے تعزیتی پیغام بھیجا ہے۔
تعزیتی پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الامام صادق علیہ السّلام
اذا مات العالم ثلم فی الاسلام ثلمۃ لا یسدہا شیئ الی یوم القیامۃ
صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کا ارشاد گرامی ہیکہ " جب عالم مرتا ہے تو اسلام میں ایک ایسا شگاف پڑجاتا ہے جسے قیامت تک کوئی چیز بھر نہیں سکتی "
ویسے تو دنیا میں روزانہ سینکڑوں اموات ہوتی ہیں، لیکن انمیں کچھ اموات ایسی ہوتی ہیں جو دیرپا ہوتی ہیں اور جن کا بھلانا نہ صرف مشکل ہے، بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔
انہیں اموات میں سے ایک موت مجاہد اسلام حضرت آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی قدس سرہ اور انکے ہمراہیوں کی موت ہے۔
یقیناً یہ ایسی موت تھی جسنے نہ صرف ایرانیوں کو، بلکہ پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا شاید اسمیں خداوند متعال کی کوئی مصلحت رہی ہوگی اور اسی مصلحت کی بنیاد پر ایرانی عوام ایک پلیٹ فارم پہ آگئی اور دنیا بھر کے ٦٨ ممالک کے نمائندے، بڑی بڑی شخصیات اور سرکاری اہلکار چاہے دوست ہوں یا دشمن سب تعزیت اور جنازے میں شرکت کے لئے ایران پہونچ گۓ یہ ایران کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ ایران کے تئیں اندرونی اور بیرونی اس حمایت کو ہمیشہ برقرار رکھے۔
ایک طرف پوری دنیا میں غم کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف امریکہ و اسرائیل کی ناجائز اولاد حسن اللہ یاری نے جس طرح آقائے رئیسی کی موت کا مذاق اڑایا اور آقائے رئیسی کے لئے نامناسب الفاظ استعمال کئے وہ یقیناً ناقابل برداشت ہیں مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک شیعہ مسلمان ہے، بلکہ وہ انسان بھی کہے جانے کے قابل نہیں ہے، کیونکہ انسانیت کا تقاضا ہے کہ انسان کی موت پر اظہارِ غم کیا جاۓ مگر یہ بے حیا آقائے رئیسی کی موت کا مذاق اڑا رہا ہے، ہنس رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اسے کبھی موت آئے گی ہی نہیں۔
خدا اس دشمن شیعیت و مرجعیت کو واصل جہنم فرمائے!
آیۃ اللہ رئیسی ایک عالم باعمل، عابد شب زندہ دار، فقیہ و مجاہد، سید محرومان تھے ان کا اچانک چلا جانا قوم و ملت کے لئے بہت پڑا نقصان ہے، مگر چند بے حیا و بے شرم لوگ انہیں پانچ ہزار لوگوں کا قاتل بتا رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو ایران، عراق جنگ میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو (نعوذ بااللہ) جلاد کہتے تھے کہ وہ ایرانیوں کو محاذ جنگ پہ بھیج کے مروا رہے ہیں، لیکن ان بے شرموں کو یہ نہیں پتا کہ ایرانی لوگ اپنے ملک کے دفاع میں لڑ رہے تھے اور آقائے رئیسی اپنے ملک کی عدالت کے جج تھے لہٰذا اک جج کی حیثیت سے انھوں نے اسلامی شریعت کی مطابق جو جیل کے لائق تھا اسے جیل کی اور جو پھانسی کی لائق تھا اسے پھانسی کی سزا سنائ گویا انہوں نے انصاف کا جو تقاضا تھا وہ پورا کیا نہ تو کسی کو ناحق جیل میں ڈلوایا نہ ہی کسی کو ناحق پھانسی کا حکم دیا۔
بہرحال آقائے رئیسی اب دنیا میں نہیں رہے اس لیۓ انکا ذکر اچھائی سے کرنا چاہیۓ، کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ " مرنے والے کا ذکر اچھائی سے کرو،"جس طرح آقائے رئیسی کے جنازے میں لاکھوں کی بھیڑ کو روتا بلکتا دیکھا گیا اور جس طرح پوری دنیا میں انکے ایصال ثواب کے لئے مجالس و قرآن خوانی کا سلسلہ جاری ہے نیز جس طرح کئی ملکوں بشمول ہندوستان نے ایک روزہ سرکاری سوگ کا اعلان کیا اس سے پتا چلتا ہے کہ آقائے رئیسی کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے وہ اپنے ملک کے علاؤہ بیرون ملک میں بھی ناقابل تسخیر شخصیت کے مالک تھے۔
ان کے جانے سے ہر دل غمزدہ اور سوگوار ہے لیکن اتنا اطمینان ضرور ہے کہ امام زمانہ عج کے لطف وکرم سے کسی دوسرے "رئیسی" کا جلد انتظام ہو جائے گا۔
میں اس عظیم سانحہ پر ملت تشیع، ایرانی قوم، بالخصوص رھبر معظم اور امام زمانہ عج کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ رب کریم آقائے رئیسی اور انکے ہمراہیوں کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل و اجر جزیل عنایت کرے۔
آمین یارب العالمین
شریک غم: احقر احسان عباس قمی مبارکپوری
١٦/ذیقعدہ ١٤٤٦ ہجری