حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا سید ضیغم عباس زیدی آف ممبئی ہندوستان نے ایرانی صدر ڈاکٹر رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تعزیتی پیغام بھیجا ہے۔
تعزیتی پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے۔
انا لله وانا اليه راجعون
آہ! شہید آیت اللہ رئیسی طيب الله رمسه
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
(علامہ اقبال)
آہ! کیسا صدمۂ جانکاہ ہے؟! دل مضطرب، آنکھیں اشکبار اور عقل گم ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھوں، کیسے لکھوں، قلم میں قوت جنبش نہیں، انگلیاں پریشاں ہیں۔ کیسے "شہید" لکھوں، جبکہ شہادت عظیم الشان درجہ ہے اور اس درجے کا حصول ہر شریف النفس کی دلی آرزو ہے۔
دنیا کے حالات معمول پر تھے کہ اسی دوران ایک دردناک خبر نے دنیا کے سکوت میں ارتعاش پیدا کردیا۔ معلوم ہوا کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کے ہر دل عزیز صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر ایران کے صوبۂ مشرقی آذربائیجان سے راجدھانی تہران کے لیے اڑا مگر اثنائے راہ میں نامساعد موسم کے باعث نظروں سے اوجھل ہوگیا اور دور دور تک کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔ یہ خبر ایران سمیت پوری دنیا کے انصاف پسند لوگوں کے دلوں پر قیامت بن کر ٹوٹی۔ خبر ملتے ہی دنیا بھر میں اور بالخصوص ایران میں آقائے رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی سلامتی کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جانے لگا۔ شب بھر دعاؤں اور مناجات کا سلسلہ جاری رہا، مسبب الاسباب کی بارگاہ میں ہر شخص یہی فریاد کررہا تھا کہ ایسے اسباب فراہم ہوجائیں کہ رئیسی صاحب اور ان کے ساتھی مکمل سلامتی کے ساتھ مل جائیں اور حسب سابق ملک و قوم اور انسانیت کی خدمت میں منہمک ہوجائیں۔ ایک طرف دعائیں ہو رہی تھیں تو دوسری طرف ایران کی ریسکیو ٹیموں کے جانباز، گمشدہ افراد کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ ادھر ملک کے قائد محترم آیت اللہ سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ اپنے ملک کے لوگوں کو ناامیدی سے نکال کر ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے کہ "قوم پریشان نہ ہو، ان شاء اللہ آپ کے محبوب صدر مملکت، آپ کی آغوش میں واپس آ جائیں گے۔"
جیسے جیسے رات گزرتی گئی، دل کی دھڑکنں تيزتر ہوتی گئیں، بے چینی مزید بڑھنے لگی اور اس بے قراری میں بس ایک ہی فقرہ زبان پر جاری تھا "اللہ خیر کرے" نماز صبح کے بعد یہ قیامت خیز خبر موصول ہوئی کہ ریسکیو ٹیمیں اس جگہ پہنچ گئی ہیں جہاں یہ دلخراش سانحہ پیش آیا تھا اور پھر وہ خبر ملی جسے سننے کے لیے دل و دماغ تیار نہ تھا ... ہائے اس حادثۂ جانکاہ میں محروموں اور مظلوموں کا مسیحا اپنے ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کر کے ابدی نیند سوگیا۔
تبریز، قم، تہران اور مشہد جیسے شہروں میں جنازے کے جلوس میں لاکھوں لوگوں کی شرکت اور گریہ کناں آنکھوں سے اپنے چہیتے صدر اور ان کے رفقاء کو الوداع کہنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایران کی غیور قوم اپنے علماء اور رہبروں سے صرف پیار ہی نہیں کرتی بلکہ انھیں سر آنکھوں پر رکھتی ہے۔
جنازے کی نماز میں رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کا تین مرتبہ "اللهم أنا لا نعلم منهم إلا خيرا" کہنا اور لاکھوں لوگوں کا گریہ کرنا، مقبولیت کی معراج ہے۔ ایسے غم انگیز موقع پر رہبر معظم کا یہ فرمانا کہ "میری قوم کے لوگو! آپ یقین رکھیں کہ اس سانحے سے اسلامی جمہوری نظام میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔" ان لوگوں کے لئے پیغام تھا جو یہ سوچ کر خوش ہو رہے تھے کہ آقائے رئیسی کے جانے کے بعد اسلامی جمہوریہ کا نظام کمزور ہوکر ختم ہوجائے گا مگر اس پیغام نے باطل کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا کیوں کہ اللہ کا وعدہ ہے:
۞ مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَآ أَوْ مِثْلِهَآ ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور اے رسول! ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا دلوں سے محو کردیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی آیت ضرور لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر شئے پر قادر ہے۔ (سورۂ بقرہ، آيت ۱۰۶) اور کسے ملک و قوم کی باگ ڈور دینی ہے، یہ بات اللہ بہتر جانتا ہے۔
وَإِذَا جَآءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَآ أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ
اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک ہمیں بھی ویسی ہی وحی نہ دی جائے جیسی رسولوں کو دی گئی ہے جب کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے اور عنقریب مجرمین کو ان کے جرم کی پاداش میں خدا کے یہاں ذلّت اور شدید ترین عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ (سورۂ انعام، آيت ۱۲۴)
خداوند عالم ان عظیم الشان شہداء کو شہدائے کربلا علیہم السلام کے ساتھ محشور کرے۔ آمین
تمہارے خون کی سرخی میں وہ اجالا ہے
کہ قاتل اپنے اندھیرے میں چھپ نہیں سکتے
ہزار جنگ کی سازش ہزار قتل کے وار
تمہارا خون مگر رائیگاں نہ جائے گا
زمانہ جسم سے ملبوس زخم اتارے گا
حیات، پیرہنِ گل کے انتظار میں ہے
(شاعر علی سردار جعفری)