۶ تیر ۱۴۰۳ |۱۹ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jun 26, 2024
امام خمینی

حوزہ/ ہر سال 3 جون کو ایران میں رہبر کبیر آیت اللہ روح اللہ امام سید الموسوی خمینی کی 35 ویں یوم برسی جوش، جذبہ اہتمام و عقیدت سے منایا جاتا ہے۔ آپ کی وفات 3 جون 1989 عیسوی کو حرکت قلب بند ہونے سے تہران میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ میر دامادی تھیں اور پدر بزرگوار کا نام سید مصطفٰی موسوی تھا۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی |

بکھرے ہوئے پیکر کو واحد بنا دیا

ایمان و صبر و ضبط کا شاہد بنا دیا

ہر سال 3 جون کو ایران میں رہبر کبیر آیت اللہ روح اللہ امام سید الموسوی خمینی کی 35 ویں یوم برسی جوش، جذبہ اہتمام و عقیدت سے منایا جاتا ہے۔ آپ کی وفات 3 جون 1989 عیسوی کو حرکت قلب بند ہونے سے تہران میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ میر دامادی تھیں اور پدر بزرگوار کا نام سید مصطفٰی موسوی تھا۔ آپ ایک مزہبی، مہذب اور تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ ایران کے پہلے رہنما اور بانی انقلاب قرار پائے۔ امام خمینی رحہ نے یہ بات غلط ثابت کر دیا کہ بادشاہوں کا تختہ الٹ دینے کے لئے طاقت، فوج اور اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ جیل گئے، جلاوطنی کا سامنا کیا اور طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بادشاہوں کی حکومت کو علم و عمل، صبر و شکر اور جد و جہد و ایثار سے قوت، فوج اور اسلحہ پر کامیابی و کامرانی حاصل کی جا سکتی ہے یہ آپ نے تاریخ کے اوراق میں رقم کی۔

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں، فکر میں تحریک نہیں، قدرٍ توحید نہیں، عمل میں ترجمانیٔ آیات نہیں اور سورۃ الزلزال کی آیات مبارکہ نمبر 8-7 پر نظر نہیں "پھر وہ دیکھ لیں گے اگر ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی۔ اور اپنی بدی بھی دیکھ لیں گے گو وہ ذرہ برابر ہی کی ہو۔"

مندرجہ بالا نکات کی جانب توجہ مبذول کرانے کا اغراض و مقاصد یہ ہے کہ بانیٔ انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران، آیت اللہ روح اللہ سید موسوی خمینی رحہ کی 35 ویں برسی کے موقع پر کشمیر سے کنیا کماری، اودھ سے دکن تک، بہار سے بنگال اور یوں کہا جائے کہ بر صغیر، یوروپ، امریکہ، افریقہ اور عرب و مشرق وسطیٰ ملکوں میں مجلس، اجلاس، سیمنار، سمپوزیم، جلوس، ریلی، جلسہ، ویبنار، یوٹیوب، کلاؤڈ اور زوم وغیرہ پر پروگراموں میں بہترین مقررین و مبصرین امام خمینی رحہ کی زندگی، ان کے کمالات، انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی، فضیلت، عظمت اور افادیت پر پرمغز روشنی ڈال رہے ہیں اور ناظرین و سامعین کو آشنا کرا رہے ہیں۔

صحافیوں، کالم نگار، مضمون نگار، اور دانشوران نے بھی اپنے اپنے قلم کو دوڑا رہے ہیں ساتھ میں شعراء کرام نے بھی اپنے کلام سے محظوظ کرانے کی کوشش میں لگے ہیں اور نشستوں کا دور ابھی کچھ دن اور جاری رہے گا۔ یہ سلسلہ گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل جاری و ساری ہے۔ دنیا تو سب ہمیں عاشقان خمینی رحہ پکار رہی ہے۔ کیا ہم بھی انھیں اس دوران ان کی صفات کو پہچانا اور عمل میں لائے؟ کیا وہی سوال ذہن میں گردش کرتا ہے کہ کہاں وہ اور کہاں میں؟ امام خمینی رحہ نے حسینی بن کر، کربلا کے پیغام کو اپنا کر بادشاہت و باطل قوتوں سے ٹکرا کر ظلم و ستم کو ظلمت کے سمندر میں غرق کر دیا۔ عرب والوں کو نئی روشنی، راہ، جذبہ، حوصلہ، غیرت اور ایمان جلا و شمع حرات بخشی۔

امام خمینی رحہ کی وہ شخصیت ہے کہ جن کا عمل، علم، دوستی، دشمنی، لینا، ترک کرنا، بات کرنا، خاموش رہنا، قیام، رکوع، سجود، صبر، شکر، جلاوطنی، صلح، جنگ اور قول و فعل خالص خدا کے لیے رہا ہے۔ وہ علم الٰہی سے مزین و مالا مال تھے۔ ان کی منزلیں ایسی خوبیوں کا خزانہ ہے جسے لوگوں کے لیے بیان کیا جانا چاہئے۔

علم کرتا ہے زمانے میں خمینی پیدا

جہل انسان کو صدام بنا دیتا ہے

رہبر کبیر آیت اللہ روح اللہ سید الموسوی خمینی رحہ نے علم کے جوہر بکھرے ہیں۔آپ کی معتبر تصانیف ہیں جیسے تحریر الوسیلہ، 2 جلد؛ ترجمہ تحریر الوسیلہ، 4 جلد؛ کتاب البیع، 5 جلد؛ حکومت اسلامی یا ولایت فقیہ؛ کتاب الخلل فی الصلوۃ؛ جہاد اکبر، رسالہ توضیح المسائل؛ مناسک حج؛ تفسیر سورۃ حمد؛ دیوان شعر؛ سبھی عشق؛ رہ عشق؛ بادہ عشق؛ نقطہ عطف؛ محرم راز؛ مقام رہبری در فقہ اسلامی؛ مسائل امر با لمعروف و نہی عن المنکر؛ مسئلہ قضاوت؛ جہاد نفس؛ رابط نیت؛ اربعین حدیث؛ صحیفہ امام (مجموعہ آثار امام خمینی، 22 جلد؛ صحیفہ نور؛ وصیت نامہ؛ منشور روحانیت؛ وعدہ دیدار؛ فریاد برائت اور آوای توحید وغیرہ۔ امام خمینی رحہ کی شخصیت، ان کے ذریعے برپا کئے گئے انقلاب اور ان کے انقلاب کے ہمہ گیر اثرات مرتب ہونے کے اثرات کا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے مندرجہ بالا کتابوں کا بغور مطالعہ لازم ہے۔

امام خمینی رح نے مدرسہ قم میں وہ شہرہ آفاق تقریر کی جو ایک عظیم انقلاب کا دیباچہ بن گئ۔ انھوں نے کہا: میرا دل درد سے پھٹا جا رہا ہے۔ میں اس قدر دل گرفتہ ہوں اس شخص (اشارہ محمد رضا شاہ پہلوی) نے ہمیں فروخت کر ڈالا ہماری عزت اور ایران کی عظمت خاک میں ملا ڈالی۔ اہل ایران کا درجہ امریکی کتے سے بھی کم کر دیا گیا ہے اگر شاہ ایران گاڑی کسی امریکی کتے سے ٹکرا جائے تو شاہ کو تفتیش کا سامنا ہوگا لیکن کوئی امریکی خانساماں شاہ ایران یا اعلی ترین عہدے داروں کو اپنی گاڑی سے روند ڈالے تو ہم بے بس ہوں گے، آخر کیوں۔۔۔؟ کیونکہ ان کو امریکی قرضے کی ضرورت ہے۔ اے نجف، قم، مشہد، تہران اور شیراز کے لوگو! میں تمھیں خبردار کرتا ہوں یہ غلامی قبول مت کرو۔ کیا تم چپ رہو گے اور کچھ نہ کہو گے؟ کیا ہمارا سودا کر دیا جائے اور ہم زبان نہ کھولیں؟

امام خمینی کی یہ آفاقی و ابدی تقریر نے ایران کے عوام پر ایسا اثر مرتب کیا کہ سبھی شاہ پہلوی کے خلاف سڑکوں پر آئے اور اپنی زندگی کی فکر کئے بغیر تختہ الٹ دیا۔

حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے گُفتار سے نہیں، بلکہ اپنے علم و عمل، صبر و شکر، جد و جہد و ایثار اور اپنے کردار سے انقلاب پیدا کیا۔ ان کا جہاد صرف سیاسی، سماجی، فکری اور اقتصادی نا تھا بلکہ ان تمام جہادوں کے ساتھ اندرونی جہاد بنفس بھی تھا۔ جس زمانے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ امریکہ کے خلاف زبان کھولی جاسکتی ہے، امام خمینی رحہ نے بڑی طاقتوں کے بارے میں پائی جانے والی سوچ تبدیل کر کے انہیں ان کی اوقات یاد دلا دی اور ثابت کر دیا کہ دنیا کی طاقتوں پر ضرب لگائی جا سکتی ہے یہ حقیقت سویت یونین کی تباہی اور امریکہ کے موجودہ حالات ڈوبتے ٹائٹنیک کے مانند ہے جو اپنے آپ میں خود گواہ ہے۔

یہ واقعہ بھی ہندوستانی علماء کرام، ذاکرین، مقررین و حریت لیڈران کے لیے قابل توجہ ہے کہ پاکستانی فوجی جنرل اور چھٹے صدر، محمد ضیاء الحق امام خمینی رحہ سے ملنے کے لیے تہران گئے۔ ضیاء الحق نے ملاقات کے دوران پاکستان میں انقلاب برپا کرنے کے لیے طریقۂ کار دریافت کیا۔ امام خمینی رحہ نے مشورہ دیا کہ پاکستان میں انقلاب لانے سے پہلے آپ کو اپنے آپ میں انقلاب لانا ہوگا۔ یہ اشارہ ان علماء کرام، ذاکرین، مقررین، واعظین، شعراء کرام کے لیے ہے جو صرف منبر، محراب سے اپنی گفتگو، تقریر اور واعظ سے انقلابی بنانا چاہتے ہیں۔ کیا امام خمینی رحہ نے گفتار سے شاہی خاندان اور ان معاون امریکہ کو ایران سے باہر کیا؟ اول اور اہم کردار رہا ہے۔

امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے کردار، امانت داری، دیانتداری، ایمان اور توحید کے حوالے سے ایک معقول و مناسب حوالہ موجودہ حالات میں دینا نہایت ضروری ہے کہ فصل زمستان بود۔ کسی تاجر نے امام خمینی رحہ کو زیادہ تعداد میں کمبل دیا یہ کہہ کر کہ اس کمبل کو علماء کرام کے درمیان تقسیم کر دیں گے۔ کثیر تعداد میں کمبل دیکھ کر امام خمینی رحہ کے خادم نے ایک کمبل دینے کا تقاضا کیا، لیکن نہیں دیا، دوسری دفعہ بھی خادم نے اپنے آپ کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے کمبل مانگا، مگر اس دفعہ بھی امام نے مسترد کردیا۔ خادم نے مسلسل تیسرے دن بھی کمبل کے لیے مطالبہ کیا تو تاجر کے کمبلوں میں سے ایک عدد بھی نہیں دیا بلکہ اپنا ذاتی کمبل سپرد کر دیا۔ اب یہ بھی تذکرہ کرنا لازمی ہے کہ خادم نے کہا کہ میں آپ کی خدمت کرتا ہوں۔ امام خمینی رحہ نے جواب دیا کہ تم خدمت کرتے ہو لیکن عالم تو نہیں ہو۔تاجر نے یہ کہہ کر کمبل دیا تھا کہ اسے علماء کے درمیان تقسیم کریں گے۔ شب کے درمیان جب خادم کی آنکھ کھلی تو امام خمینی رحہ کے کمرے کی لائٹ جلتی دیکھی، گھبرا کے کھڑکی سے اندر کی طرف جھانکا تو دیکھتا ہے کہ امام ٹھنڈک سے بچنے کے لیے اپنا عبا جسم پر ڈالے ہوئے ہیں۔ اور دستور کے خلاف کمرے کی لائٹ ٹھنڈک سے بچنے کے لیے جلا رکھی ہے۔

کہانی کا اخلاقی سبق یہ ہے کہ اگر کوئی چیز یا رقم جس کے لیے دی جائے وہ اسی حق یا ذات میں استعمال و خرچ کی جائے۔

مذکورہ بالا تحریر کے لب لباب پر ذہن میں گردش کرنے والے سوالات ہیں کہ کیا غرباء، بیواؤں، طلباء و طالبات، مدارس، مدرسین، مریض و مریضہ، ہسپتال، خمس، زکوٰۃ، فطرہ اور ترقیاتی کاموں وغیرہ کے نام پر جمع شدہ رقم اسی کام پر خرچ ہو رہا ہے جس نام پر رقم جمع کی جاتی ہے؟ کیا آیت اللہ روح اللہ سید موسوی خمینی رحہ کے کردار ان لوگوں کے پیش نظر ہے جو ان کی برسی میں شمولیت حاصل کرتے ہیں؟

کیا تمام مومنین و مومنات، عزاداران سید الشہداء، مقلدٍ رہبر کبیر، رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای دام ظلہ اور آیت اللہ سید علی حسینی سیستانی دامت برکاتہ کے مقلدین کے لیے عبرت ہے جو قابل اتباع ہے۔

آیت اللہ العظمٰی روح اللہ سید موسوی خمینی رحہ دراصل کربلا کی راہ کا ایک بزرگ سپاہی تھا، جس نے باطل قوت کے سامنے انکار کرنا، سلطانٍ حُریت حسینؑ ابن علیؑ سے درس حاصل کی، جس نے اولاد زہرہؑ ہونے کا حق و ثبوت پیش کیا، بے وطن رہا مگر ظالم کے سامنے جھُکا نہیں، دنیا کو ثابت کیا کہ جو انسان کربلا سے منسلک ہو جاتا ہے اسے پھر حق پرستی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ آج امام خمینی رحہ کا وہ آفاقی و ابدی شخصیت ہے کی کوئی شخص کے سامنے اپنے ملک کے نظام و مسئلے کا گلہ کریں گے تو وہ شخص ایک ہی لخت میں جواب دےگا "اس ملک کو خمینی جیسے انقلابی شخصیت کی ضرورت ہے۔

امام خمینی رح نے نہ صرف ایران، بلکہ عراق، شام، لبنان، فلسطین، یمن، نائجیریا، افریقہ اور دیگر ممالک میں لوگوں کے دلوں، معاشرے، قصبوں اور گلیوں میں اپنی انقلابی فکر کو روشن کر دیا ہے تبھی تو شور ہے: خمینی خمینی شعار ما (خمینی خمینی ہمارا نعرہ ہے) شہادت افتخار ما (شہادت ہمارا فخر ہے)

شکر معبود کہ راقم الحروف کو رہبر کبیر آیت اللہ روح اللہ امام سید الموسوی خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی 2013ء کی برسی میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای دام ظلہ کی تقریر کو قریب سے سماعت کا موقع فراہم ہوا۔ ایران کے صدر پروفیسر احمدی نژاد صاحب سے ہاتھ ملانے کا بھی موقع ملا۔ امام خمینی رح کے پوتے حجت الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی سے مصافحہ کرنے کا موقع ملا، امام خمینی رحہ کے معمولی رہائش کا دیدار کیا۔ الحمدللہ! کے قبر مقدسہ کی زیارت کی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .