۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
جواد الائمہ

حوزہ/ امام محمد تقی الجواد علیہ السلام ابن حضرت امام علی رضا علیہ السلام تمام معصومین علیہم السلام میں سب سے کمسن اور چھوٹے تھے، کیونکہ جب آپ صرف 7-6 سال کے تھے تب ہی عطوفت پدری سے محروم ہوگئے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی| امام محمد تقی الجواد علیہ السلام ابن حضرت امام علی رضا علیہ السلام تمام معصومین علیہم السلام میں سب سے کمسن اور چھوٹے تھے، کیونکہ جب آپ صرف 7-6 سال کے تھے تب ہی عطوفت پدری سے محروم ہوگئے، لیکن اس کے باوجود آپؑ کی قدر و منزلت آپ کے آباؤ اجداد کی طرح نہایت عظیم تھی اور آپؑ کا بلند تذکرہ بر سر نوک زبان تھا (مطالب السؤل، صفحہ 195)۔ علامہ حسین واعظ کاشفی رقم طراز ہیں "مقام ولے بسیار بلند است" آپ کی منزلت اور آپ کی ہستی بلند تھی (روضتہ الشہداء، 438)۔ یہ فضیلت و عظمت محبان امامؑ کے لیے فخر و افتخار کی بات ہے جو علامہ خاوند شاہ تحریر کرتے ہیں "درکمال فضل و علم و ادب و حکمت امام جواد بمرتبہ بودہ کہ ہیچ کس را از اعظم سادات آن مرتبہ نہ بودہ"۔ اس متن کا ترجمہ لازمی ہے کہ قارئین کرام کے ذہن عالیہ میں بطور جذبہ نقص کر جائے۔ علم، ادب و حکمت میں امام محمد تقیؑ کو وہ کمال حاصل تھا جو کسی کو بھی نصیب نہ تھا۔ (روضتہ الصفا، جلد 3، صفحہ 16) علامہ شبلخجی لکھتے ہیں کی امام تقیؑ کمسنی کے باوجود فضائل سے مزین تھے "ومناقبہ کثیرۃ" اور آپ کے مناقب و مدائح بے شمار ہیں۔ (نورا لابصار، 145) آپؑ جملہ صفاتٍ حسنہ میں یگانۂ روزگار تھے۔ اور آپؑ نے علم، ادب و حکمت سے ظلم و جور کا مقابلہ کیا۔

علماء، محققین، مصنفین و محدثین کا متفقہ علیہ بیان و تحریر ہے کہ امام المتقین حضرت امام محمد تقیؑ بتاریخ 10 رجب المرجب، 195 ہجری اور انگریزی کیلنڈر کے اعداد و شمار کے مطابق 811 عیسوی یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے تھے (روضتہ الصفا جلد 3، صفحہ 16؛ شواہد النبوت، صفحہ 204؛ انوار نعمانیہ، صفحہ 127)

قارئین کرام کے لیے وقت پیدائش کی حالات و کیفیات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ تمام مومنین و مومنات کی واقفیت میں اضافہ ہو۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ پدر بزرگوار نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے یہاں جو بچہ عنقریب پیدا ہوگا وہ عظیم برکتوں کا ہوگا۔ (اعلام الوریٰ، صفحہ 200)۔ وقت پیدائش امام، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ، جناب حکیمہ فرماتی ہیں کی ولادت کے بعد غسل دیتے وقت جو چراغ روشن تھا وہ گل ہو گیا لیکن پھر بھی اُس حُجرہ میں روشنی بدستور رہی۔ اور اتنی روشنی رہی کہ بہن حکیمہ نے بچہ کو آسانی سے غسل دیا۔ اس وقت پدر بزرگوار، امام علی رضاؑ تشریف لائے۔ بہن نے بھائی کے آغوش میں صاحبزادے کو پوشاک میں لپیٹ کر دے دیا۔ آپؑ نے سر اور آنکھوں پر بوسہ دے کر بہن کو واپس کر دیا۔ امام محمد تقیؑ کی آنکھیں دو دن تک بند رہیں۔ تیسرے دن جب آنکھیں کُھلیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی جانب نظر کی۔ پھر داہنے بائیں دیکھ کر کلمۂ شہادتین زبان پر جاری کیا۔

رضاؑ کے چمن میں، کھلا ایسا غنچہ

ہے عصمت کے گلشن میں نکہت خوشی کی

امام جواد آئے، بزم جہاں میں

لیے ساتھ اپنے، وراثت علیؑ کی

امام علی رضاؑ کی ہمشیرہ، جناب حکیمہ فرماتی ہیں کہ میں یہ دیکھ کر سخت متحیر و متغیر ہوئی اور میں نے سارا ماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا۔ آپؑ نے فرمایا تعجب نہ کرو، یہ میرا فرزند حُجتٍ خدا اور وصی رسُول ہدیٰ ہے۔ اٍس سے جو عجائبات ظہور پزیر ہوں، اُن میں تعجب کیا؟ محمد بن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مُہرٍ امامت تھی جس طرح دیگر آئمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مُہریں ہوا کرتی تھیں۔ (مناقب)

جلال و شوکت و حشمت کا ایک باب ہیں یہ

خدا کے نفس کی ایک بولتی کتاب ہیں یہ

انھیں کی دم سے جہاں میں ہے علم کی خوشبو

ہے دین جس سے معطر وہ اک گلاب ہیں یہ

عالم انسانیت میں امام محمد تقی الجواد علیہ السلام ابن امام علی رضا علیہ السلام کی قمری کیلنڈر کے مطابق 1225 ویں یوم شہادت بڑے رنج و غم سے منائی جا رہی ہیں۔ شہادت کی مناسبت سے شہر شہر، جگہ جگہ، امامبارگاہوں، گھروں اور ہالوں میں مجلسیں منعقد کی جا رہی ہیں۔ مومنین و مومنات کی جانب سے امامؑ کے نوہ پسر یعنی امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی الفرجک الشریف کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کئے جا رہے ہیں۔

حضرت امام محمد تقیؑ کی کل حیات طیبہ 25 برس پر محیط ہے۔ اس قلیل عمر کی مدت کے دوران یا یوں لکھا جائے کہ آپؑ کا عہد حیات میں جو بادشاہانٍ وقت گزرا ہے اس کا نام اور اس کی حکمرانی کی مدت قارئین کرام کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا اور اسلامی تاریخ کے علم میں خاطر خواہ اضافہ بھی۔ امامؑ کی حیات طیبہ کے دوران تین خلیفہ/بادشاہ مقرر ہوئے۔ مختلف خلیفۂ وقت کے نام اور مدت کچھ اس طرح ہیں۔ آپؑ کی جب ولادت ہوئی تو اس وقت کا بادشاہ امین ابن ہارون رشید عباسی تھا (دفیات الاعیان)، 198 ہجری میں مامون رشید بادشاہ وقت ہوا (تاریخ خمیس و ابوالفداء) اور اس کے بعد 218 ہجری میں معتصم عباسی خلیفۂ وقت قرار پایا۔

امامؑ سے حسد، دشمنی، پابندی اور سازش کی تاریخ رہی ہے لیکن ظالم و جابر خلیفۂ وقت آپؑ کے فضائل و کمالات سن طفلی سے ہی ہر شیطانی حربہ اپنایا لیکن الٰہی نور کو مقید کر نہ سکا۔

بمحفلٍ عقل و خرد، عرفان کی یہ صبح گاہ

یہ ہے سجدہ گاہٍ حکمت، فکر کی یہ خانخاہ

آگہی کی سرزمیں ادراک کی یہ بارگاہ

خوشبوئے نہجٍ بلاغت مدح سے آنے لگی

فکر مضموں قولٍ قرآنی دے ٹکرانے لگی

آپؑ دنیا کہ تمام فضائل کے حامل تھے۔ دنیا کہ تمام لوگ اپنے مختلف ادیان ہونے کے باوجود آپؑ کی غیر معمولی صلاحیتوں سے حیرت زدہ تھے۔ آپؑ سات سال اور کچھ ہی مہینے کی عمر میں درجہ امامت پر فائز ہوئے، آپؑ نے ایسے علوم و معارف کے دریا بہائے جس سے تمام عقلیں مبہوت ہو کر رہ گئیں۔

امام محمد تقی علیہ السلام کی اس کمسنی میں جید فقہاء اور معروف علماء بھی مشکل اور پیچیدہ مسائل دریافت کرتے تھے جس کا آپؑ ایک تجربہ کار فقیہ کے مانند جواب دیتے تھے۔ راویوں کا کہنا ہے کہ آپ سے تین ہزار مختلف قسم کے مسائل پوچھے گئے جن کے جوابات آپؑ نے بڑے حسن و خوبی سے تشریح اور فصاحت سے وضاحت کر بیان فرمائے۔

بڑے بڑے علماء آپؑ کے مناظروں، فلسفی، کلامی اور فقہی بحثوں سے متاثر ہو کر آپ کی عظمت کا اقرار کرتے اور خلیفۂ وقت، منتصر کے دربار میں جاکر آپؑ خوبیوں، صلاحیتوں، فضل و برتری کا تذکرہ و اقرار کرتے تھے۔ یہ توصیف و مباحات ہے کہ عٍظام فقہاء اور اکابر علماء سات سال کی عمر میں ہی آپؑ کے علوم سے مستفیض ہوتے تھے۔ اپنے کمال و فضل کی وجہ سے دنیا والوں کے لیے حیرت و تعجب کا سبب تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بغداد کے قاضی القضات، یحییٰ بن اکثم سے سوال و جواب ہوا۔ یحییٰ نے امام سے سوال کیا، امامؑ نے اس مسئلہ کی تحلیل کرتے ہوئے اس کی مختلف صورتیں بیان کیں۔ مجمع میں تکبیر و تہلیل کی صدائیں گونجنے لگیں اور اس طرح سب پر آشکار ہو گیا کہ اللہ نے اہل بیتؑ کو علم و حکمت عطاء کیا ہے جس طرحاس نے تمام انبیاء اور رسول اکرمؐ کو عطاء کیا ہے:

دامن تمھارا چھوڑ کے جائیں بھی کس جگہ

منزل بھی تم یقین بھی تم

اوصاف کیا لکھے یہ قلم وارثِ رضا

تہذیبِ انما بھی ہو حق کی رضا بھی تم

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے اقوال آفتابٍ علم کی شعاعیں ہیں جو بندگانٍ خدا کے لیے ہدایت اور مستقل مشعلٍ راہ ہیں۔ آپؑ کی ہدایتیں صرف ایک پہلو کو لیے ہوئے نہیں ہیں بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو لیے ہوئے ہیں۔ تمام انسانوں کو کمال مطلق کی طرف ہدایت کرتے ہیں۔ آپؑ کے چند اقوال ذریں زندگی کے لیے راہ نما قرار پا سکتے ہیں۔

"جو شخص خدا پر بھروسہ کرتا ہے لوگ اپنی حاجتیں اس سے طلب کرتے ہیں، اور جو خدا سے ڈرتا ہے لوگ اسے دوست رکھتے ہیں۔" "انسان کا کمال عقل میں ہے۔" "ظلم کرنے والا، اس کی مدد کرنے والا، اور ظلم پر راضی رہنے والا سب ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔" "جو خدا کے علاوہ کسی اور سے امید لگائے خدا اس کو اسی پر چھوڑ دیتا ہے اور جو بغیر علم کے عمل کرے وہ صلاح سے زیادہ فساد پھیلاتا ہے۔" "دین عزت کا سبب ہے، علم خزانہ ہے،خاموشی نور ہے، بدعت سے زیادہ کسی نے دین کو برباد نہیں کیا، صالح رہنما سے قوم کی اصلاح ہوتی ہے، دعائیں بلا کو رد کرتی ہیں۔" اور "عفت فقر کی، شکر استغفار کی، صبر بلا کی، انکساری بزرگی کی، فصاحت کلام کی، تواضع علم کی، ادب عقل کی، خندہ پیشانی سخاوت کی، احسان نہ جتانا نیکی کی، حضور قلب نماز کی،اور بے فائدہ باتوں سے کنارہ کشی تقویٰ کی زینت ہے۔"

اے خدایا! امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کے صدقے میں ہمیں علم، حلم، سخاوت، فصاحت، حکمت، صبر و شکر، زہد و تقویٰ اور اقوال ذریں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرما آپؑ کی خوشنودی و شفاعت حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکے!

آکر تمھارے در پہ شفایاب ہم ہوے

تم ہی سکون قلب ہو اور ہو دوا بھی تم

میری طرف بھی نظرِ کرم کرنا حشر میں

ہر ایک بے سہارے کا ہو آسرا بھی تم

تبصرہ ارسال

You are replying to: .