تحریر: محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی| انبیاء کی سرزمین فلسطین ۹ مہینے سے کربلا کا منظر پیش کررہی ہے۔ اسرائیل کے محاصرے سے غزہ کے عوام پانی اور کھانے کو ترس رہے ہیں اور اسرائیل وحشی درندہ کی مانند غزہ کے مظلوم عوام کو اپنے بمباری کا نشانہ بنارہا ہے۔
اے کاش 1400 سال پہلے اس وقت کے مسلمانوں نے مظلوموں کا ساتھ دیئے ہوتے تو شاید سانحہ کربلا پیش نہ آتا۔ امام حسین علیہ السلام اور انکے جان نثاروں کو قربانی نہ دینی ہوتی۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ پوری دنیا کے انصاف پرست بالخصوص مسلم دنیا اسرائیل کی بربریت اور جارحیت کے خلاف فلسطینی عوام کی آواز بنے۔ اگر آج بھی دنیا کے دو ارب مسلمان ایک آواز بن جائیں اور او آئی سی صرف مذمتی بیانات تک محدود نہ رہے تو مسلمانوں کی نسل کشی اور کربلا جیسے دوسرے سانحے کو روکا جاسکتا ہے۔
اے قوم وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ
کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ
تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ
مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو
لازم ہے کہ ہر فرد حسینؑ ابنِ علی ہو
باب الحکمت علیؑ ابنِ ابی طالب کا فرمان ہے: "مظلوم کا دن ظالم کے دن سے ظالم کے خلاف سخت ترین دن ہوگا۔" فلسطینیوں کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تقریباڈیڑھ ملین کے قریب فلسطینی اسرائیل میں رہ رہے ہیں اور وہ اپنے ساتھ برتے جانیوالے امتیازی سلوک اور ناروا رویوں کیخلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں ۔ اگرچہ وہ اسرائیلی شہریت کے حامل ہیں تاہم انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے وہ فلسطینی ہیں جو غزہ اور مغربی کنارہ بشمول یروشلم میں آباد ہیں اور اسرائیلی قبضہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ تیسرا گروہ ان فلسطینیوں پر مشتمل ہے جو دنیا بھر میں مقیم ہیں اور اپنی واپسی کیلئے جد و جہد کر رہے ہیں تاکہ اپنے علاقے میں آباد ہو سکیں ۔جب تک فلسطینیوں کو انکے حقوق نہیں مل جاتے اور آزاد فلسطین کا قیام عمل میں نہیں آجاتا ، آزادی کی یہ جد جہد جا ری رہے گی۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسرائیل صیہونیت کی نمائندگی کرتا ہے جو در حقیقت مغربی نظریہ اور مغربی سیاسی ایجنڈاہے۔یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب یورپ میں یہودیوں کا ہولوکاسٹ کیا گیا تو اس وقت یہودی نہ صرف فلسطین بلکہ دیگر عرب ممالک میں بھی رہ رہے تھے اور انکے ساتھ یکساں اور منصفانہ سلوک کیا جاتا تھا ۔ چنانچہ اصل مسئلہ فلسطین پر اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ہے۔ اس کی کھلی جارحیت کیخلاف جدوجہد کرنا یقینا فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے۔
سرزمین فلسطین ایک مقدس زمین ہے جسکو انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس سرزمین پر ایک نہیں بلکہ کئی انبیاءنے سکونت اختیار کی۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن اور یہ سرزمین اسلام کی جان ہے۔ نبی کریم(ص) اِسی سرزمین سےمعراج پر تشریف لے گئے ۔فلسطین کی مقدس سرزمین آج پھرلہو لہو ہے، وہاں بسنے والے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، ان پر انہی کی زمین تنگ کردی گئی ہے اور اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینیوں کو انہی کی سرزمین چھوڑنے کا الٹی میٹم دےدیا ہے جسے فلسطینیوں نے مسترد کردیا ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی بے رحمانہ بمباری کا سلسلہ کئی مہینے سے جاری ہے، صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر اتنے بم گرائے ہیں کہ اتنے بم امریکہ نے افغانستان پر نہیں گرائے تھے۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید فلسطینیوں کی تعداد۴ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور ایک ہزار سے زائد افراد ملبے تلے دبے ہیں جبکہ 10لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ دنیا میں جنگوں کے بھی آداب ہوتے ہیں جس میں بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور اسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا مگر اسرائیل کسی بھی بین الاقوامی قانون کو خاطر میں نہیں لارہا۔ سوشل میڈیا پر بچوں کی لاشیں اور مائوں کی آہ و بکا دیکھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انتباہ کے باوجود اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن کی فراہمی بند کردی ہے۔
آج فلسطین جل رہا ہے۔ نہتے فلسطینی اسرائیل کے بمبار جہازوں کے نشانے اور بموں کی زد میں ہیں جبکہ مغربی میڈیا کی کوشش ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کو ظالم کے طور پر پیش کیا جائے۔ اسرائیل اپنی ناجائز حکومت اور ناپاک وجود کو قائم رکھنے کیلئے فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے جبکہ انسانی حقوق کے نعرہ لگانے والے امریکہ اور یورپ تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں جس سے ان کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ بھی امریکہ کے سامنے بے بس اور غیر فعال نظر آرہا ہے جس سے اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اور وہ غزہ کی پٹی پر زمینی کارروائی کیلئے بھی پر تول رہا ہے۔ لیکن ان سب خلاف دنیا بھر میں ہر منصف اور حق پرست انسان فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
ایران ، عراق، ہندوستان ،امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، کینیڈا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف، مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں جس میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کا مقدمہ عالمی سطح پر اٹھانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اسرائیل اپنی جارحیت کی بنا پر آج ظلم و ستم کا عنوان بن چکا ہے اور غزہ اور فلسطین کے مظلوم عوام نے اپنے صبر و حوصلہ سے خود کو حق پرست، عدالت خواہ ، محب دین و وطن کا بہترین نمونہ قرار دیا جس پر دنیا کو افتخار ہے ۔
آج 1446ہجری کے یوم عاشور پر من حیث القوم ہمیں عہد کرنا ہو گا کہ ہم عظمت اسلام کیلئے حضرت امام حسین علیہ السلام اور انکے جانثاروں کی قربانیوں کو باطل قوتوں کے ہاتھوں سے نجات دینے کے لئے دینگے اور پوری دنیا کو امن وآشتی کا گہوارہ بنا کر رہیں گے۔ اسی طرح ہمیں فلسطین اور غزہ کی آزادی کیلئے اتحاد امت کے عملی مظاہرے کی ضرورت ہے۔ آج کا دن بہر صورت اسلام کی نشاةِ ثانیہ کے احیا اور اتحاد امت کا متقاضی ہے جو ہماری مصلحتوں، مفاد پرستیوں اور اسلام سے دوری کے نتیجہ میں مفقود ہوتا نظر آرہا ہے۔ خدا ہمارے دلوں کو قوت ایمانی اور حسینی جذبہ قربانی سے منور رکھے اور عالم اسلام کو دشمنانِ اسلام کی ہر سازش سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔