بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا. النِّسَآء (۴۸)
ترجمہ: اللہ اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے اور اس کے علاوہ جس کو چاہے بخش سکتا ہے اور جو بھی اس کا شریک بنائے گا اس نے بہت بڑا گناہ کیا ہے۔
موضوع:
یہ آیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرک کے ناقابل معافی ہونے کے بارے میں ہے۔ اس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا لیکن اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو اپنی مرضی سے معاف کرسکتا ہے۔
پس منظر:
سورہ نساء مدنی سورت ہے جس میں سماجی، اخلاقی، اور مذہبی احکام کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں توحید کی اہمیت اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کے سنگین نتائج پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس آیت کا مخاطب وہ لوگ ہیں جو اللہ کے علاوہ کسی اور کو اس کا شریک بناتے ہیں، خواہ وہ بت پرستی ہو یا کوئی اور عقیدہ۔
تفسیر:
آیت کا پہلا حصہ واضح کرتا ہے کہ شرک اللہ کی بارگاہ میں ناقابل معافی گناہ ہے، یعنی اللہ کے علاوہ کسی اور کو الہ یا رب ماننا یا اس کے ساتھ شریک ٹھہرانا اللہ کے نزدیک سب سے بڑا جرم ہے۔
دوسرے حصے میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ دیگر گناہوں کو اپنی مرضی سے معاف کرسکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت رحیم و کریم ہے لیکن اس کا حق کسی کو بھی شریک بنانے میں نہیں دیا جا سکتا۔
اہم نکات:
1. شرک کی سنگینی: شرک سب سے بڑا گناہ ہے جسے اللہ معاف نہیں کرتا۔
2. مغفرت کا دائرہ: اللہ دیگر گناہوں کو معاف کرسکتا ہے بشرطیکہ شرک نہ کیا گیا ہو۔
3. توحید کی اہمیت: اس آیت میں توحید کی مرکزیت اور عقیدہ کی بنیاد پر شرک سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔
4. عذاب اور مغفرت کا فرق: شرک کرنے والے شخص کے لیے اللہ کی طرف سے بہت بڑا عذاب ہے، جبکہ دیگر گناہوں میں اللہ مغفرت کا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔
نتیجہ:
یہ آیت ہمیں واضح طور پر یہ سبق دیتی ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی بھی قسم کا شرک کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ ہمیں اپنے عقیدے میں صرف اللہ کو واحد معبود ماننا چاہیے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ اس آیت کی بنیاد پر مسلمانوں کو اپنے ایمان کی حفاظت اور توحید پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء