بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنْفُسَهُمْ ۚ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا. النِّسَآء(۴۹)
ترجمہ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے نفس کی پاکیزگی کا اظہار کرتے ہیں ... حالانکہ اللہ جس کو چاہتا ہے پاکیزہ بناتا ہے اور بندوں پر دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوتا۔
موضوع:
یہ آیت ان لوگوں کی نشاندہی کرتی ہے جو اپنے نفس کی پاکیزگی کو خود سے بیان کرتے ہیں اور اپنی تعریف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس طرزِ عمل کی مذمت فرماتا ہے اور اس بات کو واضح کرتا ہے کہ حقیقی پاکیزگی اور مقام اللہ کے اختیار میں ہے، وہ جسے چاہے پاکیزہ بناتا ہے۔
پس منظر:
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کچھ لوگوں نے اپنی خودپسندی کا اظہار کیا اور خود کو نیکی اور پارسائی کا نمونہ قرار دیا۔ ان لوگوں نے اپنے نفس کی تعریف کی اور گمان کیا کہ وہ اپنی نیکیوں کے باعث برتری رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یاد دلایا کہ پاکیزگی اور فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی کسی کو نیک اور پارسا بناتا ہے۔
تفسیر:
اس آیت کا بنیادی مقصد انسان کو اس کی حقیقت سے روشناس کروانا ہے کہ اپنی پاکیزگی اور برتری کا اظہار کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم اور شان کے خلاف ہے۔ اللہ نے وضاحت فرمائی کہ بندے کو اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ پاکیزگی کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور مرضی ہے، اور یہ کہ وہی انسان کے اعمال کا جائزہ لینے والا ہے۔
اہم نکات
• خودستائی کی مذمت: انسان کو اپنی تعریف سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ اخلاقی کمزوری اور غرور کو ظاہر کرتا ہے۔
• حقیقی پاکیزگی اللہ کے اختیار میں ہے: اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے، پاکیزہ بناتا ہے، اور کسی کو بھی اختیار نہیں کہ وہ خود کو بلند مقام پر فائز سمجھے۔
• انصاف: اللہ تعالیٰ ظلم سے پاک ہے اور بندوں کے ساتھ بال برابر بھی ناانصافی نہیں کرتا۔
نتیجہ:
اس آیت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو عاجزی اور انکساری اختیار کرنی چاہیے اور اپنی پاکیزگی کا اظہار کرنے کے بجائے اپنی اصلاح اور اللہ کی رضا پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ حقیقی پاکیزگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے، اور وہی سب کا حقیقی منصف ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء