بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا. النِّسَآء(۵۱)
ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جن لوگوں کو کتاب کا کچھ حصہّ دے دیا گیا وہ شیطان اور بتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور کفار کو بھی بتاتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔
موضوع:
اس آیت میں اُن لوگوں کا ذکر ہے جنہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ ملا، لیکن وہ اپنے اعمال اور عقائد میں شیطانی عناصر اور بت پرستی کے پیروکار بن گئے۔
پس منظر:
یہ آیت سورہ نساء کی آیت نمبر 51 ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کے بعض گروہوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ لوگ، باوجود کتابِ الہی کے حامل ہونے کے، صحیح رہنمائی سے منحرف ہو گئے اور انہوں نے باطل طاقتوں کو ماننا شروع کر دیا۔
تفسیر:
تفسیر کے مطابق، "الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ" سے مراد وہ اہلِ کتاب ہیں جنہیں کچھ الہامی تعلیمات ملی تھیں، مگر انہوں نے شیطان (جبت) اور طاغوت (باطل حکمران) کی پیروی اختیار کرلی۔ بعض مفسرین نے جبت سے مراد کُہانت، جادو اور باطل عقائد لیے ہیں، جبکہ طاغوت سے مراد ہر وہ نظام ہے جو الہی احکامات کے مخالف ہو۔ مزید یہ کہ یہ لوگ کفار کو مومنین سے بہتر سمجھتے تھے، اور یہ باور کراتے کہ کفار کا راستہ سیدھا ہے۔
اہم نکات:
1. اہل کتاب کی نافرمانی اور انحراف۔
2. جبت اور طاغوت پر ایمان کی ملامت۔
3. کفار کو مومنین سے بہتر سمجھنے کی مذمت۔
نتیجہ
یہ آیت ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ علم کے باوجود اگر نیت اور عمل میں خلل ہو تو انسان صحیح ہدایت سے بھٹک سکتا ہے۔ اللہ کے نزدیک سچائی صرف اس شخص کی ہے جو ایمان، اخلاق اور اعمال میں استقامت رکھتا ہو۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء