حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ہفتۂ رضاکار فورس (بسیج) کی مناسبت سے پیر 25 نومبر 2024 کو پورے ملک سے آئے ہزاروں رضاکاروں سے ملاقات میں بسیج (رضاکار فورس) کو اپنے آپ میں ایک ثقافتی، سماجی اور عسکری نیٹ ورک بتایا اور کہا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے اور امریکا کی جانب سے دھمکیاں دیے جانے کے بعد 26 نومبر 1979 کو اس بڑے خطرے کو ایک بڑے موقع میں تبدیل کر دیا اور سماجی، ثقافتی اور عسکری زمین میں اس شجرہ طیبہ کو بو دیا۔
انھوں نے عسکری پہلو کو رضاکار فورس کا صرف ایک پہلو بتایا اور کہا کہ پہلے مرحلے میں رضاکار فورس ایک مکتب، سوچ اور فکر ہے جس نے "ایمان اور خدا پر اعتقاد" اور "خود اعتمادی اور خود پر یقین" جیسے دو بنیادی منطقی اصولوں پر بھروسہ کر کے مختلف میدانوں میں نمایاں اور ثمربخش کردار ادا کیا ہے اور مستقبل میں بھی کرے گی۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں فلسطین اور لبنان میں جاری مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ احمق یہ نہ سوچیں کہ گھر، اسپتال اور لوگوں کے اجتماعات پر بمباری، ان کی فتح ہے، دنیا میں کوئي بھی اسے فتح نہیں مانتا۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دشمن غزہ اور لبان میں اپنے تمام تر جنگي جرائم کے باوجود نہ فتحیاب ہوا ہے اور نہ ہی ہوگا، کہا کہ نیتن یاہو کی گرفتاری کا جو حکم جاری ہوا ہے وہ کافی نہیں ہے اور اس کی اور صیہونی حکومت کے مجرم سرغناؤں کی سزائے موت کا حکم جاری ہونا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ اور لبنان میں صیہونی حکومت کے جرائم کو مجرموں کی خواہش کے برخلاف مزاحمت کی تقویت اور اس میں شدت کا باعث بتایا اور کہا کہ کسی بھی شعبے کا غیور فلسطینی اور لبنانی جوان جب یہ دیکھتا ہے کہ چاہے وہ مقابلے کے میدان میں رہے، چاہے نہ رہے، بمباری اور موت کا خطرہ اس کے سر پر ہے تو وہ اپنے سامنے مقابلے اور مزاحمت کے علاوہ کوئي دوسرا راستہ نہیں پاتا، بنابریں جرائم پیشہ احمق درحقیقت اپنے ہاتھوں سے مزاحمتی محاذ کو وسعت دے رہے ہیں۔
انھوں نے مزاحمتی محاذ کی توسیع کو حتمی اور اٹل حقیقت بتایا اور زور دے کر کہا کہ مزاحمتی محاذ آج تک جتنا پھیلا ہے، کل اس سے کئي گنا زیادہ پھیل جائے گا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اسی طرح اپنے خطاب میں اقوام کی توانائيوں کے انکار اور ان کی تذلیل کو تسلط پسندوں کی مستقل پالیسی بتایا اور کہا کہ قرآن مجید کی آيتوں کے مطابق فرعون، اپنی قوم کی تذلیل اور بے عزتی کرتا تھا تاکہ وہ اس کی اطاعت کرے۔ البتہ فرعون، آج کے امریکا اور یورپ کے سلطانوں سے بہتر تھا کیونکہ یہ لوگ دوسری اقوام کی بھی تحقیر کرتے ہیں تاکہ ان کے مفادات اور ذخائر کو لوٹ سکیں۔
انھوں نے سامراج کے داخلی عناصر کو، تسلط پسندوں کے باہری، ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کو پورا کرنے والا بتایا اور کہا کہ یہ عناصر، جیسا کہ تیل کی صنعت کے قومیائے جانے کے معاملے میں ہوا، اپنے آقاؤں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے قوم کی تاریخ، تشخص اور توانائي کا انکار کرتے ہیں تاکہ تسلط پسندوں کی راہ ہموار ہو جائے۔
رہبر انقلاب نے بسیجی سوچ کو محاصرہ شکن بتایا اور کہا کہ بسیجی جذبے سے حاصل ہونے والی خود اعتمادی، قوم کی تذلیل، تحقیر اور مایوسی کے لیے تسلط پسندانہ نظام کے بہت خطرناک سافٹ وئير ہتھیار کو ناکارہ بنا دیتی ہے اور یہ جذبہ اور اس سے حاصل ہونے والی توانائي بلاشبہ مزاحمتی محاذ کے اراکین اور ان کے ممالک میں امریکا، مغرب اور صیہونی حکومت کی تمام سازشوں پر غلبہ حاصل کر لے گي۔
انھوں نے سنہ 2010 کے عشرے کے اواخر میں بسیجی جذبے کے ذریعے بیس فیصد افزودہ یورینیم کے معاملے میں امریکا کی خباثت آمیز سازش کو ناکام بنائے جانے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ایسے عالم میں جب ملک کو دوائیں بنانے کے لیے بیس فیصد افزودہ یورینیم کی اشد ضرورت تھی، امریکیوں نے اس وقت کے دو مشہور سربراہان مملکت کی ثالثی سے مذکورہ یورینیم بیچنے کا سمجھوتہ ہونے کے باوجود، مذاکرات کے بیچ میں ہی فریب کاری شروع کر دی تھی لیکن شہید شہریاری سمیت ہمارے رضاکار سائنسدانوں نے بیس فیصد افزودہ یورینیم تیار کر دیا جس پر امریکی حیران رہ گئے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ناکارہ ہونے کے احساس، رکاوٹوں کے سامنے ناتوانی، ذہنی پریشانیوں اور اس کے نتیجے میں خودکشی کو دنیا کے مختلف ملکوں کے جوانوں کی اہم مشکلات بتاتے ہوئے کہا کہ بسیجی سوچ، تسلط پسندوں کے شور و غل سے مرعوب نہیں ہوتی اور مختلف مسائل میں امریکا اور صیہونی حکومت جیسے سامراجیوں کے پروپیگنڈوں اور ہنگاموں کے مقابلے میں اس کے ہونٹوں پر استہزائیہ مسکراہٹ ہوتی ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ رضاکار اپنے ہدف یعنی اسلامی معاشرے اوراسلامی تمدن کی تشکیل اور انصاف کے قیام پر ایمان کے ساتھ موت سے ڈرے بغیر اور شہادت کی آرزو کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، ان ہی خصوصیات کی وجہ سے ایرانی رضاکار کو پورا یقین ہے کہ وہ آخرکار ایک دن صیہونی حکومت کو ختم کر کے رہے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں خطے کے ممالک کے لیے امریکا کے منصوبے سے آگہی اور اس کے مقابلے میں ڈٹ جانے کو سیاسی میدان میں رضاکار فورس کی تقویت کا ایک عنصر بتایا اور کہا کہ خطے میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے امریکا کا مطلوبہ ہتھکنڈہ ملکوں میں "آمریت اور ڈکٹیٹرشپ" اور "نراج اور انارکی" ہے۔ ان دونوں میں سے جو بھی صورتحال ملک میں پیش آئے تو مطلب یہ ہے کہ اس میں دشمن کا ہاتھ ہے اور رضاکار فورس کو اس کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے۔