۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
News ID: 362648
15 ستمبر 2020 - 02:22
تقویم حوزہ: ۲۶ محرم الحرام ۱۴۴۲

حوزہ/تقویم حوزہ: ۲۶ محرم الحرام ۱۴۴۲؛شهادت علی بن حسن مثلث علیه السلام، 146ه-ق

حوزہ نیوز ایجنسیl
 تقویم حوزہ:
آج:
عیسوی:  Tuesday - 15 September 2020
قمری: الثلاثاء،(سہ شنبہ،منگل) 26 محرم 1442

آج کا دن منسوب ہے:
زین العابدین و سيد الساجدين حضرت علي بن الحسين عليهما السّلام
باقر علم النبی حضرت محمد بن علی عليه السّلام
رئيس مكتب شيعه حضرت جعفر بن محمد الصادق عليهما السّلام

آج کے اذکار:
- یا اَرْحَمَ الرّاحِمین (100 مرتبه)
- یا الله یا رحمان (1000 مرتبه)
- یا قابض (903 مرتبه) حاجت کے لیے

اہم واقعات:
شهادت علی بن حسن مثلث علیه السلام، 146ه-ق
➖➖➖➖➖
شہادت حضرت علی بن حسن المثلث (علی عابد) :-

امویوں سے حکومت حاصل کرنے کے کچھ عرصے بعد تک تو عباسی حکمران سیاسی مصلحت کی خاطر آل رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے کچھ لگاؤ کا مظاہرہ کرتے رہے مگر پھر اپنی اصل فطرت پے آگئے اور ظلم و جور کا ایک ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جو تھمنے کا نام نہیں لیتا تھا - عباسیوں کے ظلم و جبر کے خلاف خانوادہ رسول کے کئی فرزندوں نے قیام و خروج کیا جن میں اولاد امام زین العابدین اور اولاد امام حسن مجتبیٰ سر فہرست ہیں - اولاد امام زین العابدین میں سے حضرت زید شہید اور ان کے فرزند - اور اولاد امام حسن مجتبیٰ جو کہ آل حسن کے نام سے تاریخ میں مشہور ہوئی میں سے اکثر شہزادوں نے حکومت وقت سے جنگ و قتال اور جہاد کیا - ان جنگوں کی وجہ سے عباسی و اموی حکمرانوں کو مستقل طور پر آل رسول سے دشمنی کا جواز حاصل ہو گیا اور عباسیوں کے ظلم کا مرکز نگاہ آل حسن و آل حسین سلام اللہ علیھم ٹھہرے - وہ شہزادے جن کو جنگوں میں شہید نہ کیا جا سکا انھیں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر قید و زنداں میں ڈال کر شہید کر دیا گیا - آل حسن مجتبیٰ علیہ السلام میں سے امام حسن مجتبیٰ کے پڑپوتے ، حضرت علی بن حسن (مثلث) بن حسن (مثنیٰ) بن امام حسن (مجتبیٰ) بن علی بن ابی طالب سلام اللہ علیھم - مشہور بہ علی بن حسن المثلث کو بھی منصور دوانیقی نے زنداں میں ڈال دیا جہاں ان کی شہادت ہوئی-

١٤٠ ہجری میں منصور دوانیقی بغداد سے مدینہ آیا اور اس نے آل حسن کے دیگر افراد مثلاً عبدالله بن حسن مثنیٰ، ابراهیم بن حسن مثنی، ابوبكر بن حسن مثنی، حسن بن جعفر بن حسن مثنی، عبدالله بن داوود بن حسن مثنی، علی بن داوود بن حسن مثنی، عباس بن داوود بن حسن مثنی، محمد بن ابراهیم بن حسن مثنی، اسحاق بن ابراهیم بن حسن مثنی، عباس بن حسن مثلث، علی عابد بن حسن مثلث و علی بن محمّد نفس ذكیه کو گرفتار کر لیا -

١٤٤ ہجری میں حضرت محمد دیباج بن حسن مثنیٰ کو گرفتار کیا گیا اور ہر طرح کا ظلم ان کے ساتھ کیا گیا - ان تمام قیدیوں کو زنجیر و بیڑیاں پہنا کر کوفہ منتقل کیا گیا اور زندان کوفہ جو کہ بد ترین اور تاریک ترین زندان تھا میں لوہے کی زنجیریں میں کس کر پھنکوا دیا گیا -

ان مظالم کی تاب نہ لاتے ہوے ٢٦ محرم ١٤٦ ہجری کو علی بن حسن بن حسن بن حسن بن علی (علیہ السلام) کی ٤٥ سال کی عمر میں زندان منصور دوانیقی میں شہادت ہوئی، جب آپ کی شہادت ہوئی تو اس وقت آپ سجدہ کی حالت میں تھے اور اپ کا بدن اقدس زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا - آپ نے پسماندگان میں چار بیٹیاں اور پانچ فرزند چھوڑے - آپ کے ایک بیٹے ، حسین بن علی کو ''شہید فخ'' بھی کہا جاتا ہے جنہوں نے بنو عباس کے مظالم کے خلاف مکہ سے باہر فخ کے علاقے میں خروج کیا اور انھیں حضرت سید الشہدا علیہ السلام کی مانند شہید کیا گیا -

حضرت علی بن حسن اپنے وقت کی نہایت عابد و زاہد شخصیت اور آل حسن میں ممتاز حثیت کے حامل تھے - اسی بنا پر آپ کو علی عابد کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
➖➖➖➖➖
چھبیسویں مجلس -- ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لا یَعْلَمُوْنَ

کیا برابر ہیں وہ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ اللہ تعالیٰ نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر فیصلہ طلب کیا ہے کہ کیا تمہاری عقلیں یہ فیصلہ کر سکتی ہیں کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے سب ایک جیسے ہیں؟ یقینا تمہارا ضمیر اور تمہاری عقل اس برابری کی قائل نہ ہوگی۔
کیا دھوپ اور سایہ برابر ہیں؟ کیا ظلمت و نور برابر ہیں؟ کیا غمی و خوشی برابر ہیں؟ جس طرح یہ برابر نہیں اسی طرح حلال و حرام برابر نہیں۔۔ خبیث و طیب برابر نہیں اور عالم و جاہل برابر نہیں۔
برابر ی کا قائل وہی ہوسکتا ہے جس میں عقل نہ ہو کیونکہ اگر ہر شئے کے افراد برابر ہوتے تو عقل کو پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
ہم نیک و بد۔۔ مومن ومنافق اور مسلم وکافرکو برابر نہیں سمجھتے پس مومن سے محبت اورمنافق سے نفر ت فطری امرہے اور اسی کی دوسری تعبیر ہے تولیٰ و تبریٰ، یعنی نیک سے محبت اور بد سے نفرت۔
پیغمبر اکرمؐ کے بعد سارے صحابی برابر نہیں کیونکہ سب صحابہ نے وقتاََ فوقتاََ مولا علی ؑسے مسائل دریافت کئے اور کسی بڑی یا چھوٹی کتاب میں کسی قوی یا ضعیف راوی نے نقل نہیں کیا کہ کبھی حضرت علی ؑ نے بھی کسی سے کوئی مسئلہ دریافت کیا ہو؟ پس صحابہ کا حضرت علی ؑ کی طرف رجوع کرنا اور مولا علی ؑ کا کسی کی طرف رجوع نہ کرنا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ وہ سب برابر نہیں تھے۔۔ بلک حضرت علی ؑ عالم قرآن اور مرجع خلائق تھے۔
عالم وجاہل برابر نہیں ہوسکتے۔۔۔ شارحِ نہج البلاغہ نے (عَلٰی مَانُقِلَ عَنْہُ) خطبہ میں عجیب فقرہ کہا ہے   سُبْحٰنَ الَّذِیْ قَدَّمَ الْمَفْضُوْلَ عَلٰی الْفَاضِل  منزہ ہے جملہ عیوب سے وہ اللہ جس نے فاضل پر مفضول کو ترجیح دی۔۔ وہ اپنی تجویز کردہ خلافت کے صحیح ہونے پر اللہ کو بھی اپنے ساتھ شامل کررہاہے اور اللہ کے عیوب کی نفی میں مفضول کی فاضل پر ترجیح کا ذکر کیا(اس احمق کو یہ نہ سوجھی کہ مفضول کو فاضل پر ترجیح دینا کتنا بڑا عیب ہے) اس کے بعد حضرت علی ؑ کے فاضل ہونے پر اس نے استدلال بھی کیا کہ صفاتِ متضا دہ تو انسان میں جمع نہیںہوسکتیں اور صفاتِ کمال میں سے بعض متضاد ہیں جو جمع ہو سکتیں جیسے شجاعت اور رحم۔
لیکن حضرت علی ؑ وہ ذات ہے جو صفات ِمتضادہ کا جامع ہے کہ مثلاََ رحیم بھی ہے اور شجاع بھی ہے۔۔ یعنی رحمدل بھی ہے اور سخت دل بھی ہے، حالانکہ دل ایک ہے یا سخت ہوتا ہے یا نرم اور اللہ کا جبار قہار اور ستار غفار ہونا اپنے مقام پر ہے کہ وہ دل نہیں رکھتا؟ اب مولا علی ؑ کاان صفاتِ متضادہ کا جامع ہونا اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت علی ؑ عام انسانوں سے بلند تر ہے اور مظہر ذاتِ پروردگار ہے۔
مصلائے عبادت پر حضرت علی ؑ سے زیادہ نرم دل نظر نہیں آتا اور میدان میں علی ؑ سے بڑا بہادر کوئی نہیں۔۔۔۔ صرف لیلتہ الہریر میںایک طرف ایک ہزار دشمنان دین بھی قتل کئے اور مصلائے عبادت پر ایک ہزار رکعت نماز بھی ادا فرمائی۔
اس قدر ذکر کرنے کے باوجود پھر مفضول کو فاضل پر ترجیح دینا اس کو نصیب ہو اور یہ ترجیح خدا نے نہیں دی کیونکہ ظلم ہے اور ظلم سے اللہ پاک ہے بلکہ یہ ترجیح ان لوگوں نے دی جن کی نگاہوں میں ظلم و عدل یکساں ہیں۔۔۔ ہم شیعہ لوگ مفضول کو ترجیح دینا تو درکنار۔۔ مفضول کو فاضل کے جوتے کے برابر بھی نہیں سمجھتے۔
مجھ سے ایک فاضل غیر شیعہ نے سوال کیا تھا کہ تمہارے نزدیک خلافت کا معیار کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ فاضل ہونا۔۔ پس ایک مولوی کی زبان سے نکلا اگر فاضل ہونا معیار خلافت ہے تو ہم جیت گئے اور تم ہار گئے، کیونکہ پیغمبراکرؐم کے بعد تمام امت سے فاضل وہ تھا جس کو ہم نے خلیفہ مانا ہے اور اس کے فاضل ہونے کی دلیل ہے پیغمبراکرؐم کا فرمان کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ شخص ہوتا؟ اس پر دوسرے نے کہا کہ حدیث تو حضرت عمر کے متعلق ہے لیکن وہ مصرّ رہا کہ حضرت ابوبکر کو حضور ؐ نے فرمایا تھا ان کا جھگڑا بڑھا تو میں نے کہا فضول جھگڑرہے ہو میرے نزدیک وہ دونوں ایک جیسے تھے خواہ یہ پیشگوئی اوّل کے حق میں ہو یا ثانی کے حق میںہو؟ میں آپ سے دریافت کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کے نزدیک نبوت کا معیار کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا آپ ہی بتا دیں۔۔ تو میں نے کہا شیعہ مذہب میں نبوت کا معیار کم از کم یہ ہے کہ زندگی کے کسی حصہ میں ایک لمحہ کے لیے بھی مشرک نہ رہا ہو تو انہوں نے کہا اس معیار کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں۔۔۔ تو میں نے پھر سوال کیا کہ اس معیار نبوت کا خود حضرت پیغمبر اکرؐم کو علم تھا یا نہ تھا؟ اگر نہ تھا خود ہی نبی کیسے بن گئے؟ جن کو معیار نبوت کا بھی پتہ نہ ہو اور اگر آپ کو اس معیار کا پتہ تھا تو کسی ایسے شخص کے متعلق نبوت کی پیش گوئی کیسے دے سکتے ہیں؟ جو چالیس سال تک مشرک رہا ہو؟ لہذا آپ کی بیان کردہ حدیث خواہ اوّل کے حق میں ہو یا ثانی کے حق میں ہو غلط ہے اور جھوٹ ہے اور پیغمبر اکرؐم کی طرف ایسی حدیث کی نسبت دینا پیغمبر اکرؐم کی ناقدر شناسی ہے اس کا ان کے پاس جواب کوئی نہ تھا۔
پھر مجھ سے سوال کیا گیا کہ مذہب شیعہ کے حق ہونے کی دلیل کیا ہے ؟
میںنے کہا توحید و نبوت و عقیدہ قیامت وغیرہ میں تو ہمار ا اختلاف نہیں اختلاف صرف مسئلہ خلافت میں ہے ؟
لہذا اب میں سوال کرتا ہوں کہ مذہب یقین کا نام ہے یا شک کا نام ہے ؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ مذہب یقین کا نام ہے تو میںنے کہا کہ شیعہ مذہب کے حق ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جس کی خلافت بلافصل کے شیعہ قائل ہیں شیعوں کو سو فیصد یقین ہے اور جس کی خلافت کے آپ قائل ہیں آپ کو یقین نہیں ہوسکتا وہ کہنے لگے کیسے ؟
میں نے کہا یقین وہ ہے جس پر انسان بلادریغ قسم کھا سکے ہمارا ادنیٰ سے اعلیٰ۔۔ جاہل سے عالم تک۔۔ ہر صغیر وکبیر۔۔ ہر جگہ۔۔ گھر میں۔۔ مسجد میں۔۔ روضہ رسول کے سامنے اور کعبہ کے اندر یا چھت پر برملا قرآن اٹھا کر قسَم کھا سکتا کہ حضرت علی ؑ امام برحق ہیں لیکن یہ قسم تم لوگ نہیں اٹھا سکتے اس لیے کہ یقین وہ ہے جو دو طرفہ ہو اور وہ صرف شیعوں کے پاس ہے۔
اس نے کہا کہ ہمارا بھی یقین ہے کہ جس کی خلافت کے ہم قائل ہیں و ہ برحق تھا میں نے کہا اپنے نفس کو دھوکے میں نہیں ڈال سکتا، میں خالی کاغذ کو جیب میں رکھ کر ہزاروں کو قائل کر سکتا ہوں کہ میرے جیب میں ایک سو کا نوٹ ہے لیکن ہزاروں کو قائل کرنے کے باوجود اپنے نفس کو قائل نہیں کر سکتا کہ یہ سو کانوٹ ہے بلکہ مجھے میری ضمیربھی ملامت کرتی رہے گی کہ جھوٹ ہے۔۔ فریب ہے۔۔ دھوکا ہے، میں نے کہا اگر ایک شخص کے متعلق سارے شہر والے حلفیہ بیان دے کر کہیںکہ یہ چور نہیںہے لیکن وہ خود پولیس کے سامنے چوری کا اعتراف کرلے تو ان لوگوںکے یقین وحلف کا کیا مقام رہے گا ؟ میںایک شخص کے متعلق کہوںکہ وہ سید ہے لیکن وہ خود انکار کردے تومیرے یقین کی کیا قیمت ہو گی ؟
دیکھئے ہمیں یقین ہے کہ اللہ ایک ہے اور ہم حلفیہ کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے اور یہ یقین دو طرفہ ہے کیونکہ اللہ نے بار بار اعلان فرمایا ہے کہ میں ایک ہوں،اسی طرح ہمارا یقین محمدرسول اللہ یکطرفہ نہیںبلکہ دو طرفہ ہے وہ خود بھی اپنی رسالت کا بار بار حلفیہ اعلان فرما چکے ہیں اور ہمارا یقین ہے کہ حضرت علی ؑ محمد مصطفی کے برحق جانشین ہیں تو مولا علی ؑ بھی حلفیہ بیان دے چکے ہیں کہ میں ان کا برحق جانشین ہوں چنانچہ منبر پر آتے ہی فرمایا  ألاٰن رَجَعَ الْحَقُّ اِلٰی مَحَلِّہ  کہ اب حق اپنے مقام پر پلٹ کر آگیا یعنی محمد مصطفی حق تھے اور اب میں آگیا ہوں تو گویا پلٹ کر حق دوبارہ اپنے مقام پر پہنچ گیا ہے۔
پس ہمارا یقین اور ہماری حلف دو طرفہ ہے لیکن اپنے خلیفہ کے متعلق اگر آپ حلف اٹھا بھی لیںکہ وہ برحق جانشین پیغمبرؐ تھے وہ خود قطعاََ حلف نہیں اٹھا سکتے کہ میں ان کا برحق جانشین ہوں۔۔ چنانچہ انہوں نے اپنی خلافت کے پہلے دن بھی اپنی نااہلیت کا اعلان فرمایا کہ میں خود اس کے اہل نہیں ہوں تم لوگو ں نے مجھے اس مقام پرلا کھڑا کیا ہے، اگر مجھ سے غلطی سرزد ہو تو وہ شیطان کی طرف سے ہوگی پس مجھے سیدھا کر لینا اور زندگی کے آخری دن بھی عبدالرحمن بن عوف کے سامنے اعتراف کیا کہ کاش میں رسول اللہ سے پوچھ لیتا کہ اس مقام کا اہل کون ہے؟ پس جس کو  پہلے دن یقین نہیں ہے اور نہ اڑھائی سال کے بعد آخری دن یقین ہے تو آپ لوگوں کو چودہ سو سال کے گزرنے کے بعدکس نے یقین دلایا کہ وہ برحق جانشین پیغمبرؐ تھا؟ اور اس یکطرفہ یقین کی قیمت کیا ہو گی؟
دیکھئے جس شخص (عمر) نے پہلے دن اس کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اس نے اپنے دور خلافت میں برسرمنبر کہا تھا اِنَّ بَیْعَۃَ أبِیْ بَکْرٍ کانَتْ فَلْتَۃً وَقٰی اللّٰہَ شَرَّھَا یعنی حضرت ابو بکر کی بیعت غیر آئینی تھی (فراڈ ) تھا جس کے انجام بد سے اللہ نے بچا لیا خبردار۔۔۔ اس قسم کی غلطی کو پھر نہ دہرایا جائے؟ (یعنی ہم غلط اور ناجائز خلیفہ بنالیں توگرفت سے بالاتر ہیں اور کوئی دوسرا آدمی ایسا قدم اٹھائے تو وہ قابل گرفت ہو گا) اب دیکھئے کہ جس نے اس کو خلیفہ بنایا تھا جب اس کو یقین نہیں بلکہ اس کے حق نہ ہونے کا یقین تھا تو آپ کو سینکڑوں برس کے بعد اس کے برحق ہونے کا یقین کیسے ہوگیا؟
پس ہم سب کے برابر ہونے کے قائل نہیں بلکہ حضرت علی ؑ برحق جانشین پیغمبرؐ ہیں اور آنے والا وقت بتائے گا جب ادھر پر دہ غیبت اٹھاکر پیغمبر اکرؐم کا آخری جانشین آئے گا اور ادھر سابق انبیا ٔ میں آخری نبی حضرت عیسیٰؑ چرخِ چہارم سے اتریں گے وہ بتول مریم ؑ کا بیٹا اور یہ بتول زہراؑ کا فرزند۔۔ پس صحن بیت اللہ میں اکٹھے ہوں گے تو امام مہدی ؑکہیں گے اے چچا عیسیٰؑ نماز پڑھائو تو حضرت عیسیٰؑ معذرت پیش کریں گے اور جرأت نہ کریں گے۔
پس جب محمد ؐرسول اللہ کے مصلیٰ پر کھڑے ہونے کی ایک نبی جرأت نہیں کر سکتا تو اس مقام پر کوئی دوسرا خاکی آدمی کیسے کھڑا کیا جاسکتا ہے؟ اور جب حضرت عیسیٰؑ حضرت محمدؐ کے آخری وصی کو نماز نہیں پڑھا سکتاتو کوئی خاکی حضرت محمدؐ کے بلافصل وصی مولا علی ؑ کو نماز کیسے کیسے پڑھا سکتاہے؟
اگر حضرت عیسیٰؑ کے سامنے سابق کے تمام نبی ہوتے تو سب حضرت عیسیٰؑ کی اقتدا ٔ میں نماز اداکرتے اور حضرت عیسیٰؑ اقتدأ کرے گا امام مہدی ؑ کی اور حضرت مہدیؑ نماز پرھیں گے امام حسن عسکریؑ کے پیچھے اور یہ سلسلہ بڑھتا ہو ا امام حسن ؑو امام حسین ؑ تک پہنچے گا وہ نماز پڑھیں گے حضرت علی ؑ کے پیچھے۔۔۔ اب مڑکر دیکھئے تو مولا علی ؑ کے پیچھے سابق کی کل نبوتیں اور آنے والی کل امامتیں موجود ہیں لہذا حضرت علی ؑ اگر اقتدأکریں گے تو حضرت محمد مصطفیؐ کی۔
ہمارے ہاں ایک غریب آدمی شیعہ ہوا تو لوگوں نے بائیکاٹ کر دیا پس مولویوں کو لائے کہ اس کو واپس راہِ راست پر لائو۔۔ چنانچہ جب لوگ اکٹھے ہوئے تو مولویوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھائی تم توبہ کرلو؟ اس نے کہا کس سے توبہ کروں؟ انہوں نے کہا مذہب شیعہ سے، اس نے کہا مجھے صرف ایک بات کا جوا ب دو کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن ہر آدمی اپنے امام کے ساتھ محشور ہو گا تو اس کا جواب شیعہ تو یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمارے گیارہ اماموں کے بھی امام حضرت علی ؑ ہیں اور مولا علی ؑ کے امام خود نبی کریم ہیں۔۔ یہ تو سب نبی کے پیچھے ہوں گے لیکن مذہب اہل سنت کے چارفرقے ہیں اور ہر فرقہ اپنے اپنے امام کے ساتھ اٹھے گا لیکن یہ بتائو کہ ان چار اماموں کا امام کون ہے؟ جس کے پیچھے یہ امام اٹھیں گے؟ اس لیے کہ پیغمبر اکرمؐ کے زمانہ سے ان کے زمانہ تک کافی فاصلہ ہے؟ اس دلیل کا ان مولویوں کے پاس جواب نہ تھا اور شرمندہ ہو کر اٹھے اور کہا کہ اس کے ساتھ بات کرنا گناہ ہے کیونکہ یہ نہیں مانتا۔
 ہم لوگ صحابہ کے قائل ہیں اور صحابہ کا بھی احترام کرتے ہیں لیکن سب کو برابر نہیں سمجھتے۔۔۔ ہم صرف اُن کا احترام کرتے ہیں جوآلِ محمد علیہم السلام کا احترام کرتے ہیں اور جن کے دلوں میں آلِ محمد علیہم السلام  کا احترام نہیں ہمارے دلوں میں ان کا احترام نہیں؟ اگر آلِ محمد علیہم السلام کا احترام نہ کرنا ان کا قابل معافی جرم ہے تو ان کا احترام نہ کرنا ہمارے لیے قابل معافی کیوںنہیں؟
نظامُ الدین اولیا ٔ دِلّی والے سے مرید نے کہا آپ بھی ولی ہیں اور حضرت علی ؑ بھی ولی ہیں تو فرق کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تم جس شہر میں ہو وہاں کا رئیس کیا کھاتا ہے؟اور تمہاری غذاکیا ہے ؟ اس نے جواب دیا اس کی غذا گندم اور ہماری بھی گندم۔۔ پس نظام الدین اولیا ٔ بولے کہ پھر تم میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ جبکہ غذا دونوں کی ایک ہے؟ مرید نے جواب دیا بڑا فرق ہے کہ جو گندم اس کی غذا ہے وہ اس کی ذاتی جاگیر سے ہے اور جو گندم ہماری غذا ہے وہ اس کے دروازہ سے گدا کردہ ہے، پس نظام الدین اولیا ٔ نے فوراََجواب دیا یہی فرق ہے ہماری اور امام علی ؑ کی ولایت میں۔۔ کہ مولا علی ؑ کی ولایت ان کی ذاتی جاگیر ہے جو کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی اور ہماری ولایت اُن کے درِ فیض سے گداکردہ ہے۔
حضرت علی ؑ بھی جنتی ہیں اور صحابہ بھی۔۔۔ لیکن مولا علی ؑ جنت کے مالک ہیں اور صحابہ وہی جائیں گے جن کو خود امام علی ؑ بھیجیں گے، اسی طرح صحابہ کوثر پئیں گے لیکن وہ جن کو مولا علی ؑ دیں گے؟ و ہ پینے والے اور امام علی ؑ پلانے والے، لہذا جب داتا موجو د ہے تو گدا گرسے گدا کرنے کا کیا جواز؟
ہم محمد مصطفی کی آل کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے جواُن کا غلام ہم اس کے غلام ہیں، اپنی اولاد کے قاتل کو معاف کر سکتے ہیں لیکن رسول اکرؐم کی اولاد کے قاتلوں کو نہ ہمارے بزرگوں نے معاف کیا اور نہ آج ہم معاف کرتے ہیں اور نہ قیامت تک ہماری نسلیں معاف کریں گی۔
ہمارے پاس کیا بچ گیا؟ جب ہماری مخدوم زادیاں قید ہو گئیں؟
کہتے ہیں کہ اونٹوں میں ایک خاکستر ی رنگ کا اونٹ تھا جو اپنی بولی میں کچھ کہتا تھا اور سارے اونٹ روتے تھے۔۔ جب جناب فضہ نے یہ ماجرہ ذکر کیا تو بی بی زینب عالیہ ؑنے فرمایا گرچہ نانا کی امت نے ہماری قدر نہیں کی لیکن یہ اونٹ جانتے ہیں کہ ہم رسولؐ زادیاں ہیں، پس وہ اونٹ دوسروں سے بیان کرتا ہے کہ خبردار تمہارے اوپر امام حسین ؑ کی بہنیں۔۔ بیٹیاں ۔۔ مخدرات سوار ہوں گی تیزی سے قدم نہ اٹھانا تاکہ بیبیوں کو تکلیف نہ ہو؟ پس وہ سارے سن کر رو رہے ہیں۔۔۔ لیکن ہائے افسوس وہ ظالم تازیانے مار مار کر اونٹوں کو تیز دوڑاتے تھے کہ بچے گر جاتے تھے اور بیبیاں فریاد کرتی رہتی تھیں۔۔ لیکن کوئی سنتا نہ تھا۔
چنانچہ کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کافی بچوں کی قبریں راستہ میں بن گئیں اور سوال یہ ہوتا ہے کہ بیبیاں ان کو پکڑتی کیوں نہ تھیں؟
تو عزادار و ! پکڑ ا جاتا ہے ہاتھوں سے اور بیبیوں کے ہاتھ پس گردن رسن بستہ تھے۔۔ راستہ میں ظالموں نے دوپہر کے وقت ایک ٹھنڈی جگہ پر درختوں کے جھنڈ میں آرام کیا اور قیدیوں کو ایک ٹیلے پر قیام کرنے کا حکم دیا۔۔ جب دھوپ کی حرارت سے حضرت سجاد ؑ کے زنجیر گرم ہوئے تو اٹھ کر ایک خیمہ کے سائے میں سستانے کے لیے آبیٹھے، کڑی پر کڑی جو لگی تو سردارِ خیمہ حصین بن نمیر نے نوکر سے کہا اس قیدی سے کہو یہاں سے اٹھ کر چلا جائے کسی قیدی کا ہمارے خیمہ کے سائے میں بیٹھنا ہماری توہین ہے؟
اس نوکر نے کہا تو حضرت سجاد ؑ نے فرمایا میر ے زنجیر گرم ہو گئے ہیں ٹھنڈا ہونے پر چلا جائو ں گا۔۔ آخر کار وہ کمینہ ظلم کا تازیانہ لے کر نکلا اور کہا کہ خود اٹھو گے یا میں اٹھائو ں؟ پس شاید ادھر سے سکینہ ؑ خاتون نے دیکھا ہوگا تو گڑ گڑا کر عرض کیا ہوگا بھیا سجاد ؑ! یہ شخص ظالم ہے آپ ادھر آجائیں میں خود سورج کے آگے کھڑ ے ہو کر تیرے اوپر سایہ کر لوں گی۔
زندانِ شام میں بقولے۔۔۔ بی بی زینب ؑ خاتون نے محسوس کیا کہ کسی نے سر پر ہاتھ رکھاہے پوچھا کون؟ تو خاموشی چھا گئی اس وقت رات ڈھل چکی تھی اور زندان میں تاریکی چھائی ہوئی تھی پھر بی بی سو گئیں تو دوبارہ سر پر ہاتھ آیا لیکن پوچھا تو پھر خاموشی رہی۔۔ جب تیسری دفعہ ہاتھ آیاتو بی بی اٹھ بیٹھیں اور فرمایاکون ہے میرے سر پر بار بار ہاتھ لگانے والا؟ اس وقت دھیمے لہجے سے گریہ میں ڈوبی ہوئی آواز سے عرض کیا پھوپھی جان ! ناراض نہ ہونا میں تیرے مظلوم بھائی حسین ؑ کی یتیم بچی ہوں، تو بی بی نے فرمایا تجھے نیند کیوںنہیں آتی حالانکہ تیرے عمر کے بچے تو سر شام سو جایا کرتے ہیں ؟ بتائو کیا مانگتی ہو ؟ پس رو رو کر بچی نے عرض کیا اگر مل سکے تو با با کا سینہ مانگتی ہوں۔۔ پس ایک ایک بی بی نے باری باری اٹھایا لیکن بچی نے رونا بند نہ کیا تو امام سجاد ؑ نے فرمایا اسے میرے سینے پر سلادو شاید با با کا سینہ سمجھ کر خاموش ہوجائے؟ چنانچہ امام سجاد ؑ زمین پر لیٹے اور بچی کو اوپر سلایا گیا کچھ دیر تک تو بچی خاموش رہیں لیکن پھر اٹھ بیٹھیںاور حضرت سجاد ؑ کی داڑھی میں ہاتھ پھیر نے لگیں پس روکر عرض کیا بھائی جان ! آپ تو میرے بھائی سجاد ؑ ہیں آپ مجھے کیوں نہیں بتاتے کہ میرے با با حسین ؑ کہاںگئے؟
چنانچہ زندانِ شام میں دن رات رونے والی بچی کی یزید کو اطلاع ہوئی کہ وہ ہر وقت روتی ہے تو یزید نے طشت طلا میں امام حسین ؑ کا سر رکھ کر اوپر رومال ڈالا اور اس بچی کے سامنے وہ طشت رکھ کر پوچھا گیا بی بی بتائو اس سر والے کو پہچانتی ہو ؟ جب بچی نے دیکھا کہ یہ تومیرے با با کا سر ہے، فوراََ سر کے اوپر منہ رکھ لیا اور کہا با با! مجھے ظالموں میں چھوڑ کر آپ کہاں چلے گئے ؟ اور تیرے ان نازنین رگوں کو کس ظالم نے تیغ جفا سے کاٹا؟ کس نے تیری ریش اقدس کو خون سے رنگین کیا؟ ہائے اس کو میری کمسنی پر رحم نہ آیا؟ ہائے اس کو میری یتیمی پر ترس نہ آیا؟ اس نے جلد رونا شروع کر دیااور ہچکی بندھ گئی۔۔ حتیٰ کہ جب کچھ دیر کے بعد ہچکی رُکی اور رونے کی آواز بند ہوئی، معصومہ کی نبض پر ہاتھ رکھا گیا تو روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن
ترتیب و تنظیم: سیدلیاقت علی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .