۲۹ خرداد ۱۴۰۳ |۱۱ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jun 18, 2024
لکھنؤ

حوزہ/ لکھنؤ میں ’خواتین کی عظمت و اہمیت‘ پر جامعۃ الزہراء (س) میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں سرزمین پاکستان سے تشریف لائے عالمی شہرت یافتہ خطیب اور عالم دین علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، خطیب اکبر حضرت علامہ مرزا محمد اطہر صاحب قبلہ و خطیب العرفان مولانا محمد اشفاق صاحب کے ایصال ثواب کی مجلس بڑھنے کے ھدف سے پاکستان کے مشھور و معروف عالم دین خطیب اھل بیت علیھم السلام حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شہنشاہ حسین نقوی شھر علم وادب لکھنؤ میں تشریف لے آۓ جس میں آپ نے لکھنؤ کے مختلف و متعدد اداروں ،سماجی تنظیموں کا دورہ کیا اور ملاقاتیں کیں ۔

لکھنؤ میں ’خواتین کی عظمت و اہمیت‘ پر جامعۃ الزہراء (س) میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں سرزمین پاکستان سے تشریف لائے عالمی شہرت یافتہ خطیب اور عالم دین علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے شرکت کی۔

یہ کانفرنس 5 ذی الحجہ1445ھ بمطابق 12 جون 2024 ؀ بروز چھارشنبہ بعد از ظهر دو بجے منعقد ہوا، جس میں حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی (پاکستان ،کراچی ) نے خصوصی خطاب کیا۔

یہ پروگرام حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسید سعید الحسن نقوی ، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید منظرصادق، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید مشاہد عالم ، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا مرزا اعجاز اطہر ، مسئول آموزش، مسئول خوابگاہ نیز اساتذہ و خواہران جامعہ الزہراء (س) کی موجودگی میں منعقد ہوا۔

خواہران جامعۃ الزہراء (س)نے بہت ہی بہترین طریقۂ و انداز سے مہمان گرامی کا صلوات محمدی (ص)کے ذریعہ استقبال کیا اسکے بعد جلسہ کا آغاز تلاوت قرآن مجید کے ذریعہ ہوا جسکو مدرسہ کی ہونہار طالبات نے بطور احسن انجام دیا ،اسکے بعد جا معہ کے استادمحترم حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید سعید الحسن نے بہترین الفاظ میں مہمان ارجمند کا تعارف کرایا ۔ مدیر محترمہ کی عدم موجودگی میں نائب مدیرہ محترمہ ، خواہر زینت فاطمہ صاحبہ نے حجۃ الاسلام و المسلمین عالی جناب علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی کی خدمت میں سپاس نامہ کو پڑھا اسکے بعد علامہ موصوف نے اپنی گفتگو کا آغاز قرآن پاک کی آیت ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون کے ذریعہ کیا اور خدا وند کریم کی حمد وثناء کے بعد اپنے بعض تجربات کو طالبات کی خدمت میں پیش کیا ۔آپ نے خواتین کی زندگی کے ادوار یا روپ کو ذکر کیا اور بتایا کہ ایک خاتون چار روپ رکھتی ہے :

  • سب سے پہلا دور ،دورہ تمہیدی ہے جسے آپ بیٹی کے نام سے جانتی ہیں آپ نے بیان کیا کہ بیٹیا ں اپنے باپ کی بہترین معین و مددگار ہوتی ہیں جسکے ذیل میں آپ نے سیرت نبی (ص)کو بیان کیا کہ پیغمبر(ص) فرماتے ہیں کہ جب میں اپنی بیٹی فاطمہ ؑ کو دیکھتا ہوں تو مجھے تبلیغ دین میں تقویت ملتی ہے یعنی رسول (ص)گرامی اپنی تبلیغ کے سلسلہ کی روانی کے لئے اپنی بیٹی فاطمہ ؑ کا سہارا لیتے تھے اسکے بعد آپ نے اپنی زندگی کے ایک واقعہ کو بیان کیا کہ ایک شخص کے یہاں چھٹی بیٹی کی ولادت ہوئی تو اس نے اس ولادت پر اظہار خوشی کیا تو لوگوں نے سوال کیا کہ لوگ تو ایک بیٹی کی ولادت پر افسوس کرتے ہیں اور آپ نے چھٹی بیٹی پر مٹھائی بانٹی تو اس نے کہا کہ میری یہ بیٹی میرے لیے میری پہلی بیٹی کی طرح ہے ۔
  • دوسرا دور اصل زندگی ہے جسے آپ دور زوجیت کے نام سے جانتے ہیں کہ در اصل خاتون معاشرہ ساز ہوتی ہے اور در اصل عورت ہی اپنا گھر تشکیل دیتی ہے جس کے لئے آپ نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کیا کہ جب حضرت زہرا (س)کی شادی امیر المومینین سے ہوئی تو شادی کے اگلے روز اللہ کے حبیب (ص)نے مولا علیؑ سے سوال کیا کہ تم نے میری بیٹی فاطمہ ؑ کو کیسا پایا تو آپ ؑنے فرمایا:

نعم العون علیٰ طاعۃ اللہ

میں نے فاطمہ ؑکو خدا کی عبادت میں بہترین مددگار پایا ۔

  • تیسرا دور نتیجہ زندگی جسکوہم اور آپ دور مادر (ماں)کے نام سے جانتے ہیں حقیقتا ماں کی آغوش پہلی درسگاہ ہوتی ہے جہاں سے نسل انسانی پروان چڑھتی ہے اور کمال کی منزلوں کو طے کرتی ہے ۔
  • چوتھا اور آخری دور یا روپ بہن کا ہے جسکے لئے مولانا موصوف نے حضرت موسیٰ ؑ کی بہن جناب ام کلثوم ؑکا ذکر کیا کہ آپ ؑنے اپنی والدہ کے لئے اس راستہ کو آسان کر دیا جس کو حضرت موسیٰؑ کی ماں طے نہ کر پائیں ۔

اسکے بعد آپ نے حوزہ میں آنے کے مقصد کو بیان کیا کہ ہمارے آنے کا مقصد خود کو بنانا ہے کیونکہ جب انسان خود کو بہتر بنا لیتا ہے تو معاشرہ خود بخود بنتا چلا جاتا ہےاور دیگر امور بھی خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں جسکے ضمن میں آپ نے صادق آل محمد (ص) حضرت امام جعفر صادق ؑکی روایت کو پیش کیا : کونو ا دعاۃالناس بغیر السنتکم (لوگوں کو بغیر زبان کے (یعنی عمل کے ذریعہ )دعوت دو )

پھر آپ نے آیۃ اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ تعالیٰ کی ان نصیحتوں کا ذکر کیا جو آپ کو آقا نے عمامہ پہناتے وقت کی تھیں اور وہ نصیحتیں ذیل میں موجود ہیں :

  1. شیعہ علماء کی پہچان تقویٰ ہے لہذا تقویٰ کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے ۔
  2. جو تم نے پڑھا ہے اس کو اس طرح پڑھو کے جب تم اس کو پڑھاؤ نہایت ہی سلیس و آسان زبان میں پڑھاؤ ۔
  3. جو چیز معلوم نہ ہو تو کہہ دو معلوم نہیں ہے کیونکہ نہ جاننا بھی نصف علم ہے لیکن غلط نہ بتاؤ اور اپنی شہرت کی خاطر دین خدا کو داؤ پر نہ لگاؤ اسکے ذیل میں آپ نے روایت کو پیش کیا کہ مولا فرماتے ہیں:

اپنی انا کو مار دو اس سے پہلے کہ تم مر جاؤَ۔

لہذا س روایت کے ذریعہ اپنی تقریر کا اختتام کیا اور طالبات کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کا بہترین طریقہ سے جواب دیا ۔

سپس جامعہ کی جانب ے ھدیہ و سپاس نامہ سے بھی نوازا گیا -

اسکے بعد طلاب و علماٰء کی ذمہ داریوں کو بیان کیا آخر میں میں مدرسہ کی معلمات وطالبات علی الخصوص مدیر محترمہ خواہر سیدہ رباب زیدی کے سفر حج پر ہونے کی وجہ سے ، ان کی عدم موجودگی میں مدرسہ کے اساتذہ نے علامہ کی خدمت میں سپاس نامہ اور ہدیہ کو پیش کیا آخر میں مدرسہ کی طالبات نے تواشیح صلوا علیٰ محمد و علیٰ آل احمد کو پڑھا جسکے بعد حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا منظر صادق زیدی نے دعائیہ کلمات کے ذریعہ نشست کا اختتام کیا ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .