۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
حجت الاسلام سید ذاکر حسین جعفری

حوزہ/ آئمہ معصوم علیھم السلام کی ازواج اور بیٹیوں کے لئے بھی پردہ لازمی تھا۔ پردہ مراجع عظام، علماء، مومنین اور معاشرے کے مختلف طبقات کے افراد کی ماوں، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے لئےبھی ضروری ہے۔ پردہ تمام ادیان کا حصہ رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حرم حضرت معصومہ (س) کے مذہبی اور بین الاقوامی امور کے ماہر و مھر نیوز ایجنسی اردو کے آڈیٹر مولانا سید ذاکر حسین جعفری نے ہندوستان کے حالات کے پیش نظر اپنے بیان میں کہا کہ شیعہ اور سنی بے پردہ مسلم خواتین کو کرناٹک کی نڈر، بےباک، دلیر ،بہادر اور شجاع با پردہ مسلم طالبہ کی حمایت اور اللہ تعالی کے دستور پر عمل کرتے ہوئے پردہ کرنا چاہئے اور با پردہ مسلم خواتین کو دبانا کے ذریعہ بے پردہ کرنے کی دشمن کی کوشش کو ناکام بنانا چاہے۔ پردہ خواتین کی عزت، عظمت اور حفاظت کا نام ہے۔

سید ذاکر حسین جعفری نےکہا کہ مسلم خواتین کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کی تاسی اور پیروی کرتے ہوئے پردہ اختیار کرنا چاہئے۔ پردے کا حکم سب کے لئے یکساں ہے ۔ پیغمبر اسلام کی ازواج مطہرات اور آپ کی لخت جگر صدیقہ کبری فاطمہ زہرا (س) کے لئے بھی پردہ ضروری تھا۔ آئمہ معصوم علیھم السلام کی ازواج اور بیٹیوں کے لئے بھی پردہ لازمی تھا۔ پردہ مراجع عظام، علماء، مومنین اور معاشرے کے مختلف طبقات کے افراد کی ماوں، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے لئےبھی ضروری ہے۔ پردہ تمام ادیان کا حصہ رہا ہے۔ پردہ دار خواتین قابل فخر اور قابل عزت ہیں۔

حرم حضرت معصومہ (س) کے مذہبی اور بین الاقوامی امور کے ماہرمولانا سید ذاکر حسین جعفری نے کہا کہ ہماری بعض بے پردہ خواتین کی غفلت اور بعض مسلمانوں کی جانب سے اسلامی احکام پر عدم توجہ کی بنا آج دشمن ہماری با پردہ خواتین کو دباو اور جبر کے ذریعہ بے پردہ کرنے کی مذموم کوشش کررہا ہے۔ امید ہے کہ شیعہ و سنی بے پردہ مسلم خواتین پردہ کرکے عملی طور پر دشمن کی اس سازش کو ناکام بنا دیں گی اور کرناٹک کی با پردہ مسلم طالبہ کی عملی حمایت کریں گی ۔ ہم ہندوستان کی ریاست کرناٹک کی با پردہ مسلم طالبہ کو سلام پیش کرتے ہیں جس نے تمام خطرات کے باوجود اسلام کی آبرو کو بچا لیا اور ہم ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی اور ناروا سلوک بند کردے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .