تحریر: مولانا شاہد عباس ہادی
حوزہ نیوز ایجنسی। اے میرے وطن آپکے دامن پر لگے داغوں کو کیسے رقم کروں؟ شکستہ دل سے ان داغوں کو کیسے صاف کروں؟ کہ آپ کے ٹکڑے ٹکڑے پر ہزارہا زخم لگے ہیں، آپ کے دشمنوں کی خونی آنکھ نے آپکا ذرہ ذرہ خون آلود کیا ہے، آپ کے آنگن سے مسلسل خون رستا رہا ہے اور آپ کے رکھوالے موت کی نیند سوتے رہے، لوٹتے رہے۔ اے میرے وطن! آپ کے ساتھ ہونے والے کس کس ناروا سلوک کا حال بیان کروں کہ ہزاروں زخم کھانے کے بعد تمہاری چیخ و پکار اپنے ہم وطنو کے نام گونج رہی ہے:
پڑے ہیں ماند میرے گھر کے سب چراغ لکھو
اٹھاؤ قلم کہ میرے دل کا داغ داغ لکھو
پاک وطن کے گوشے گوشے سے ہر ٹکڑا اٹھا کر دیکھو، یہ زمین علی، حسن، حسین، عباس جیسے محب وطنوں کے خون سے سیراب ہوئی ہے، یہاں شہید لیفٹیننٹ سید یاسر عباس کا ذکر کریں جو سینہ تان کر سینے پر گولی کھاتے ہیں یا نشان حیدر لینے والے ان سپوتوں کا ذکر کریں جو یاعلی مدد کہہ کر دشمن کے سامنے سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ آؤ تمہیں بتاتے ہیں کہ اس وطن کے غدار کون ہیں؟ جنہوں نے پاک وطن میں خون کی ندیاں بہائی ہیں، نہ صرف شیعہ/سنی کی تکفیر کی بلکہ پورے پاک وطن کی تکفیر کرکے وطن کی عظمت کو پاش پاش کیا ہے، اس سرزمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں ان تکفیریوں نے بم دھماکوں سے پاک وطن کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کیا ہو۔ آؤ تمہیں بتاتے ہیں کہ تکفیریت کا بھوت کہاں سے آیا ہے؟ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ خونی جنگ صرف ایک ملک کررہا ہے جو شیعہ اور سنی کے خلاف پروپیگنڈوں کو ہوا دیتا ہے اور وطن کے غدار سعودی فنڈڈ ملا شیعہ اور سنی کی تکفیر کرکے وطن عزیز کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں، کتنی ہی کتابیں اور تقریریں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں سعودیہ سے شیعہ و سنی کے کفر پر دلائل اور قتل کے فتوے موجود ہیں۔
لہذا ہر باشعور اور محب وطن شہری ان سازشوں کو پہچان لیتا ہے اور اپنے وطن کیلئے خون کی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔ یہی جرم سردار تنویر حیدر بلوچ کا ہے، جو بھی پاک وطن کو سعودیہ و اسرائیل جیسی ناپاک ریاست سے صاف و شفاف کرنا چاہتا ہے، ایک محب وطن پاکستانی کو شعور دیتا ہے، اس سرزمین کی پاکیزہ مٹی سے وفاداری کا درس دیتا ہے اور پاکستان کی ترقی کی بات کرتا ہے، اس سے لاپتہ کردیا جاتا ہے، کونسا آئین، کونسا قانون آپ کو اجازت دیتا ہے بغیر جرم کے کئی سالوں تک ایک عام شہری کو غائب رکھیں، آخر کس قانون کے تحت یہ کام کررہے ہو؟ اگر تم عدالتوں میں پیش نہیں کررہے تو تم محافظ نہیں مجرم ہو، پاسبان نہیں لٹیرے ہو، مدافع نہیں ڈکٹیٹر ظالم ہو، ہمدرد نہیں قاتل ہو، یہ لاقانونیت اور غنڈہ گردی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، یہاں صرف تنویر حیدر بلوچ(ڈاکٹر ریحان ولایتی) کی بات نہیں سیکڑوں محب وطن شہری لاپتہ ہیں، کہیں کسی ماں کا اکلوتا لال تو کہیں معصوم بچی کا کفیل باپ، کہیں معصوم بہنوں کا اکیلا بھائی تو کہیں بوڑھے باپ کا اکلوتا سہارا۔۔۔کیا ماؤں کی سسکیاں تم سے سوال نہیں کررہی؟ کیا بوڑھے والدین کی فریاد تم سے سوال نہیں کرتیں! کیا بہنوں کی آرزؤئیں تم سے سوال نہیں کرتیں! کہاں گئی تمہاری غیرت؟ اٹھا کر غائب کردینے جیسی شرمناک حرکت تو انسانیت کے بھی خلاف ہے! تم کشمیر کی مظلومیت کا نعرہ کس منہ سے لگاتے ہو؟