۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
امام زمانہ

حوزہ/ آئمہ معصومین (ع) کی اس قسم کی احادیث جس میں کہا گیا ہے کہ ہمارے خوشی میں خوشی کریں اور ہمارے غم میں غم کریں، یہ محفل و میلاد بھی اسی لئے ہے لیکن جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اہل بیت (ع) سے ہم نے فقط خوشی اور غم کا حصہ لے لیا ہے۔

مدرس: استاد محترم سید حسین موسوی
ترتیب و تنظیم: محسن علی اصغری

(حصّہ اول)

حوزہ نیوز ایجنسی آئمہ معصومین (ع) کی اس قسم کی احادیث جس میں کہا گیا ہے کہ ہمارے خوشی میں خوشی کریں اور ہمارے غم میں غم کریں، یہ محفل و میلاد بھی اسی لئے ہے لیکن جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اہل بیت (ع) سے ہم نے فقط خوشی اور غم کا حصہ لے لیا ہے۔

خوشی اور غم کیسے کریں؟
یے طریقہ ہم نے اہل بیت (ع) سے نہیں لیا اور یہاں اہل بیت (ع) سے ہدایت لینے کے بجائے ہم نے اپنی صداقت سے یہ طریقہ کار لیا ہوا ہے یعنی ہماری اپنی زندگی میں جو طریقہ کار رائج ہیں ہم نے اہل بیت (ع) کی محفل و میلاد میں بھی وہی طریقہ کار اپنایا ہوا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہم نے جو اپنی صداقت سے طریقہ لیا ہے وہ اہل بیت (ع) کا نہ ہو۔

جیسے ہم اپنے پیاروں کے گذر جانے پر رسم و رواج سے غم مناتے ہیں، اہل بیت (ع) کے غم میں بھی ہم نے وہی طریقہ کار اپنایا ہوا، جبکہ یہ اہل بیت (ع) کا طریقہ کار نہیں ہے۔
ہمارے محفل و میلاد کا بھی وہی طریقہ کار ہونا چاہیے جو اہل بیت (ع) کا طریقہ کار ہے۔ اہل بیت (ع) کے پاس خوشی کے موقع پر عید کا تصور ہے۔ وہ خوشی چاہے غدیر کی ہو یا مباہلہ چاہیے ماہ مبارک کے اختتام پر ہو، ان سب مواقع پر اہل بیت (ع) کے پاس عید کا تصور ہے۔

ہر ایک عید میں کچھ نمازیں، کچھ دعائیں، کچھ راز و مناجات، اہل بیت (ع) پر زیارات و سلام بھیجنا بالخصوص زیارتِ امام حسین (ع) کی تاکید ہے، اس کے ساتھ شوال کی عید نہیں ہے تو روزہ بھی اس خوشی میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ اہل بیت (ع) کے پاس خوشی کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے، اُن کی سب خوشیوں میں میں یہی نظر آتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہے سکتے ہیں کہ یہ ایام اللہ تعالیٰ و اہل بیت (ع) کو مزید یاد کرنے کا ایام ہیں۔

اب چونکہ روزہ، نماز، زیارات، مناجات، صدقہ وغیرہ میں ہم نے اپنا خوشی کا مزاج نہیں بنایا ہوا کیونکہ ہم نے اِن چیزوں کو بوجھ سمجھا ہوا ہے تو اب اِن سب چیزوں سے بچنے کیلئے ہم اہل بیت (ع) کی خوشیوں میں اپنا طریقہ کار لے آئے۔

امیرالمومنین علی (ع) کی خلافت کے دور میں بھی عیدِ غدیر آئی تھی تو اُس دن امام (ع) نے خطبہ ارشاد فرمایا اور روزہ و نماز کی تاکید کی اور یے چیزیں مومن کیلئے بائثِ مسرت ہونی چاہیے اور اپنا مزاج اِن چیزوں پر بنانا چاہیے تاکہ یہ چیزیں ہمیں خوشی دیں۔

ہمارے پاس جشن کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں سب سے پہلے شاعری اور سُر آگیا اور اس سے ہم محظ مزہ لے رہے ہیں، حتیٰ کہ شاعری حقیقت پر بھی مبنی نہیں ہوتی بس خیالات ہی خیالات۔اب جیسے آج کل ایک شاعری چل رہی ہے کہ جب امام (ع) آئیں گے تو دھوپ سایہ بن جائے گی، کیا ایسا ممکن ہے؟ بس شاعر نے اپنا خیال دے دیا اور ہم نے سوچے سمجھے بغیر واہ واہ کردی اور خوش ہوگئے۔

ہم نے اپنی خوشی ایسی چیزوں کو بنایا ہوا ہے جوکہ حقیقت پر مبنی ہی نہیں ہے بس چند لمحوں کی خوشی کو ہم نے ابدی خوشی سمجھا ہوا ہے۔  

جشن میں دوسری چیز ناچ گانا اور شور شرابہ آگیا، کیا یے اہل بیت (ع) کا طریقہ ہے؟ کیا اہل بیت (ع) نے ہمیں خوشی منانے کی یے تعلین دی ہے یا یے ہماری اپنی صداقت ہے؟
ناچ گانا انسان ذات میں نہیں یے بلکہ یے جانور کرتے ہیں۔
آج کل تعلیم عام ہوچکی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی محفل و میلاد کے طریقہ کار کو تبدیل کریں اور انہیں ایسے ہی رکھیں جیسا اہل بیت (ع) نے تعلیم کیا ہوا ہے۔

(جشنِ امیدِ مستضعفینِ جہاں سے اقتباس)
۱۵ شعبان المعظم ۱۴۴۲ھ
مسجد شاہ حبیب بھٹ شاہ

جاری ہے...

تبصرہ ارسال

You are replying to: .