تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے دوسرے نائب خاص جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ
جناب ابوجعفر محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اور آپ کے والد ماجد جناب عثمان بن سعید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نزدیک قابل اعتماد و اعتبار تھے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے انکے بارے میں فرمایا : یہ جو بھی حکم تم لوگو ں تک پہنچائیں وہ میری جانب سے ہے اور جو کہیں وہ میری ہی بات ہے، انکی باتوں کوسنو اور انکی پیروی کرو کیوں کہ وہ میری نظر میں قابل اعتماد اور امین ہیں۔
جب پہلے نائب خاص جناب عثمان بن سعید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی وفات ہوئی تو حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو خط لکھا ۔
اناللہ و اناالیہ راجعون تسلیما لامرہ و رضا بقضائیہ عاش ابوک سعیدا و مات حمیدا فرحمہ اللہ۔ من کمال سعادتہ ان رزقہ اللہ تعالیٰ ولدا مثلک یخلفہ بعدہ
’’یعنی ہم اللہ کے لئے ہیں اور ہماری بازگشت بھی اسی کی جانب ہے۔ ہم اس کے امر پہ تسلیم اور اس کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ تمہارے والد نے سعادت مند زندگی بسر کی اور نیک وفات پائی اللہ ان پر رحمت نازل فرمائے۔ اور ان کی سعادت کا یہ کمال ہے کہ اللہ نے انہیں تمہارے جیسا بیٹا عطا کیا جو ان کے بعد ان کا جانشین ہے۔ ‘‘ حضرت امام زمانہؑ کی اس مبارک تحریر سے واضح ہے کہ جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا مقام و مرتبہ آپ کے نزدیک بلند تھا اور وہ آپ کے نزدیک قابل اعتماد تھے۔
جناب ابوجعفر محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نےاپنے والد کی وفات کے بعد تقریبا چالیس برس تک حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی وکالت خاصہ کی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ عباسی حکمراں سمجھتے تھے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا کوئی جانشین نہیں ہے لہذا آپ اور آپ سے پہلے آپ کے والد نے مکمل تقیہ اختیار کیا تا کہ حکومت متوجہ نہ رہے اور شیعوں کو کوئی مشکل درپیش نہ ہو ۔
۸ ؍ ربیع الاول ۳۶۰ ھ کو ہمارے گیارہویں امام حضرت حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت ہوئی اور ہمارے مولا و آقا حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کی امامت کا آغاز ہوا ۔ لیکن ماحول اتنا پر آشوب تھا کہ کہ امام زمانہؑ حکم خدا سے لوگو ں کی نظروں سے پوشیدہ رہے یعنی غیبت صغریٰ کا آغاز ہوا ۔ عباسی حکومت کی پوری کوشش تھی کہ امام زمانہؑ کو شہید کر دے لہذا امام حسن عسکری ؑ کے بعد آپ کے اہل خانہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ حکومت کے جاسوسوں کی خیانتیں اور سپاہیوں کی جنایتیں اہل حرم کے تعاقب میں رہتی تھیں اورجب گھر کا ہی کوئی اہم فرد (جعفر) مخالف ہو تو باہری دشمن کو زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حالات اتنےمشکل تھے کہ خمس کا مال لانے والا بغیر کسی خط کے جناب محمد بن عثمان کو دیتا تا کہ کوئی تحریر مشکل کا سبب نہ بن سکے۔ اور جب عباسی حاکم کو اس کے وزیر نے اطلاع دی کہ حضرت امام حسن عسکریؑ کے بعد انکے فرزند جو زندہ ہیں اور انھوں نے کچھ خاص لوگوں اپنا وکیل بنایا ہے تا کہ رقوم جمع کریں تو حاکم نے حکم دیا کہ جاسوس چھوڑیں جائیں تا کہ سب کو گرفتار کیا کر لیا جائے۔ ادھر حضرت امام زمانہؑ نے اپنے تمام وکلاء کو حکم دیا کہ جب تک میرا دوبارہ حکم نہ پہنچے کوئی کسی سے کوئی رقم وصول نہ کرے۔ جاسوس ایمان وخلوص کی چادر اوڑھ کر ایک وکیل کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے اپنے مولا و آقا حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خدمت میں کچھ رقم بھیجنی ہے آپ میری مدد کریں تو وکیل نے حکم امام ؑ کے مطابق جواب دیا کہ مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اور اس طرح حضرت امام زمانہؑ نے دین و مذہب کی حفاظت کے ساتھ ساتھ مومنین کو بھی تحفظ بخشا۔
مذکورہ واقعہ سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان نواب خاص نے کن مشکل حالات میں دین کی تبلیغ و بقا کی اہم ذمہ داریاں ادا کیں اور اللہ کے ان خالص بندوں پر ولی خدا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو کتنا اعتماد اور بھروسہ تھا اور یہ اپنے امام کے کیسے مطیع و فرمانبردار تھے کہ مولا کے امر و نہی کو اپنے نفس پر مقدم رکھتے اور اپنی زندگی اسی اطاعت و فرمانبرداری میں بسر کی۔
جناب ابوجعفر محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ ایک عظیم عالم و فقیہ تھے اور فقہ میں آپ کی ’’کتاب الاشربۃ‘‘ ہے جسے آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیٹی ام کلثوم نے حسب وصیت جناب حسین بن روح رضوان اللہ تعالی علیہ کو دی۔ دعائے سمات، دعائے افتتاح اور زیارت آل یاسین آپ ہی سے مروی ہے۔
جناب ابوجعفر محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ کی ۲۹ ؍ جمادی الاول ۳۰۵ ھ کو بغداد میں رحلت ہوئی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کا مزار مقدس عاشقان اہلبیتؑ کی زیارت گاہ ہے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔