حوزہ نیوز ایجنسی| امام مہدی عجل کی غیبت ایک ضروری امر ہے لیکن چونکہ ہمارے عظیم پیشواؤں کے تمام اقدامات لوگوں کے ایمان اور عقیدہ کو تقویت دینے کے لیے ہوتے تھے اور غیبتِ امام دینِ اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی تھی، اس لیے یہ غیبت ایک حساب شدہ اور دقیق منصوبہ بندی کے تحت آغاز ہوئی اور آگے بڑھی۔
امام مہدی (عج) کی ولادت سے کئی سال قبل ہی ان کی غیبت کا تذکرہ ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے اصحاب کی محافل میں ہونا شروع ہو گیا تھا۔ امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہماالسلام نے اپنے شیعوں سے رابطے کا طریقہ محدود اور مختلف انداز میں انجام دیا تاکہ پیروانِ مکتب اہل بیت علیہم السلام سیکھ سکیں کہ وہ اپنی بیشتر دینی اور مادی ضروریات کے لیے امامِ حاضر سے براہِ راست ملاقات کے بجائے اُن وکلاء سے رجوع کریں جنہیں امام نے خود اپنا نمائندہ مقرر فرمایا ہے۔
جب امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی اور حضرت حجت بن الحسن عجل کی غیبت کا دور شروع ہوا، تب بھی امام اور امت کا رابطہ مکمل طور پر منقطع نہیں ہوا، بلکہ امام عجل کے خاص نائبین کے ذریعے عوام ان سے مربوط رہے۔ یہی وہ دور تھا جب شیعہ حضرات نے علماء دین سے تعلق کو اپنایا اور جان لیا کہ دورِ غیبت میں بھی دینی فرائض کے ادراک کا راستہ بند نہیں ہوتا۔ یہی حالات طویل غیبت کے آغاز کا مؤثر مقدمہ بھی بنے۔
غیبت صغریٰ (مختصر غیبت)
امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت سن ۲۶۰ ہجری میں ہوئی، جس کے ساتھ ہی امام مہدی عجل کا دورِ امامت شروع ہوا اور غیبت صغریٰ کا آغاز بھی ہوا جو سن ۳۲۹ ہجری تک، قریب ۷۰ سال جاری رہی۔
اس دور کی اہم ترین خصوصیت یہ تھی کہ لوگ امام مہدی عجل کے ساتھ براہ راست رابطے کے بجائے اُن کے نائبینِ خاص کے ذریعہ رابطے میں تھے۔ یہ نائبین نہ صرف امام عجل کے پیغامات لوگوں تک پہنچاتے بلکہ بعض افراد ان کے ذریعہ شرف ملاقات سے بھی بہرہ مند ہوتے تھے۔
امام کے یہ چار نائبین جنہیں نوّابِ اربعہ کہا جاتا ہے، یہ ہیں:
۱. عثمان بن سعید عمری: سب سے پہلے نائبِ خاص تھے، ۲۶۷ ہجری میں وفات پائی۔ وہ امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہماالسلام کے وکیل بھی تھے۔
۲. محمد بن عثمان عمری: پہلے نائب کے بیٹے تھے اور ۳۰۵ ہجری میں وفات پائی۔
۳. حسین بن روح نوبختی: ۲۱ سال نیابت کے بعد ۳۲۶ ہجری میں انتقال پا گئے۔
۴. علی بن محمد سمری: ۳۲۹ ہجری میں ان کی وفات کے ساتھ ہی غیبت صغریٰ کا اختتام ہوا۔
یہ سب نائبین امام مہدی عجل اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے ذریعے متعارف کرائے گئے تھے۔ لیکن غیبتِ صغری کے دوران ہر نائب، اپنی وفات سے پہلے آئندہ نائب کو جو امام کی طرف سے منتخب ہوتا تھا، شیعوں کے سامنے متعارف کراتا۔
ان نائبین کے ذریعے شیعوں کا امام زمانہ عجل سے رابطہ، امام کی ولادت اور موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت بن گیا اور یہی دور غیبتِ کبریٰ کے آغاز کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا۔
غیبت کبریٰ (طویل غیبت)
امام مہدی عجل نے اپنے چوتھے نائب، علی بن محمد سمری کو ایک خط لکھا جس میں فرمایا:
«بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ یَا عَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ السَّمُرِیَّ أَعْظَمَ اللَّهُ أَجْرَ إِخْوَانِکَ فِیکَ فَإِنَّکَ مَیِّتٌ مَا بَیْنَکَ وَ بَیْنَ سِتَّةِ أَیَّامٍ فَاجْمَعْ أَمْرَکَ وَ لَا تُوصِ إِلَی أَحَدٍ فَیَقُومَ مَقَامَکَ بَعْدَ وَفَاتِکَ فَقَدْ وَقَعَتِ الْغَیْبَةُ التَّامَّةُ فَلَا ظُهُورَ إِلَّا بَعْدَ إِذْنِ اللَّهِ تَعَالَی ذِکْرُهُ وَ ذَلِکَ بَعْدَ طُولِ الْأَمَدِ وَ قَسْوَةِ الْقُلُوبِ وَ امْتِلَاءِ الْأَرْضِ جَوْراً... .» (الغیبه، شیخ طوسی، ج ۱، ص ۳۹۵)
بسم الله الرحمن الرحیم
اے علی بن محمد سمری! اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں تمہارے دینی بھائیوں کو عظیم اجر عطا فرمائے کیونکہ تم چھ دن کے اندر دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔ اپنے کاموں کو سمیٹ لو اور کسی کو اپنا جانشین مقرر نہ کرو کیونکہ اب غیبتِ تامّہ (کامل غیبت) شروع ہو چکی ہے۔ اب میرا ظہور اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو اور یہ ظہور اُس وقت ہو گا جب زمانہ طولانی گزر چکا ہوگا، دل سخت ہو چکے ہوں گے اور زمین ظلم سے بھر جائے گی...
پس، سن ۳۲۹ ہجری میں آخری نائب کی وفات کے ساتھ ہی غیبت کبریٰ کا آغاز ہوا، جو تاحال جاری ہے اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم ہو اور امام مہدی عجل ظہور فرمائیں اور دنیا کو عدل و نور سے بھر دیں۔ ان شاء اللہ۔
یہ سلسلہ جاری ہے...
(مأخوذ از: کتاب "نگینِ آفرینش" جزئی تبدیلی کے ساتھ)









آپ کا تبصرہ