۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 387416
14 جنوری 2023 - 07:15
ایران

حوزہ/ فارس (ایران) واقعی تہذیب کے گہواروں میں سے ایک ہے اور علم و عرفان کا سنگم ہے ۔

تحریر: توصیف احمد وانی۔
مترجم: بلال احمد پرے
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،
مترجم - بلال احمد پرے
اس مختصر سفرنامہ کو لکھنے کا میرا واحد مقصد یہی ہے کہ میں اپنے تجربات کو عموماً قارئین تک اور خصوصی طور پر ان طلباء تک پہنچا سکوں، جو ایران کی سرِ زمین میں اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ کسی بھی بیرونی ملک کا میرا پہلا تعلیمی سفر تھا ۔ لیکن یہ مختصر اور بامعنی سفر میرے لئے ہر اعتبار سے بہت زیادہ مفید رہا ہے ۔
اب یہ میری ذاتی خواہش ہے کہ جموں و کشمیر کے طلباء جو مذہبی علوم، الہیات، تاریخ، تقابلی مذہبی علوم، سائنسی علوم وغیرہ میں دلچسپی رکھتے ہوں کو یہ اطلاع فراہم کرنا چاہوں گا کہ ایسے سبھی طلباء کے لئے ایران کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بہترین مواقع میسر ہیں ۔
روز اول سے جب میں نے ایران کی سرِ زمین پر قدم رکھا، تو اس سے دنیا کی قدیم و امیر ترین اور سب سے زیادہ با اثر تہذیبوں میں سے پایا ہے ۔ مزید میں وہاں کے فنِ تعمیر کو دیکھ کر بہت متاثر، پُرجوش اور مسحور ہو گیا ہوں ۔ جس میں ساختی اور جمالیاتی دونوں طرح کی مختلف قسمیں دکھائی دیتی ہیں ۔

مختلف روایات اور تجربات:
بغیر کسی نت نئی ایجادات کے اور بار بار ثقافتی صدموں کے باوجود، ملک ایران نے دیگر مسلم ممالک سے ممتاز انفرادیت حاصل کی ہے ۔ اس کے علاوہ، مجھے ان کی اجتماعی ثقافتی لچک کے بارے میں جاننے کا خوب موقع ملا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایرانی شناخت کی کلیدی اور وضاحتی خصوصیات ہے اور اس کی تواریخی مدت کا اشارہ دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی تاریخ نے فن، فنِ تعمیر، شاعری، سائنس اور ٹیکنالوجی، طب، فلسفہ، انجینئرنگ وغیرہ کے ذریعے دنیا بھر میں نمایاں اثر ڈالا ہے ۔
اس کے علاوہ ایک اور چیز جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ان کی اپنی مادری زبان کا تحفظ کرنا ہے ۔ چونکہ فارسی زبان ایران کی غالب اور سرکاری زبان مانی جاتی ہے اور ایران کی پوری تاریخ میں یہ ملک کی سب سے زیادہ بااثر ادبی زبان بھی رہی ہے ۔ یہاں کے لوگوں نے اپنی مادری زبان کو ہر لحاظ سے محفوظ رکھا ہے ۔
اب میں یہاں اپنے ان تجربات کو قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں ۔ جو میں نے دنیا کی ممتاز یونیورسٹیوں میں سے ایک یونیورسٹی یعنی "اہل البیت انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران" (Ahlul Bayt International University, Iran) میں دینی علوم کے طالب علم کے طور پر دیکھے اور اپنے اندر سمیٹیں ہیں ۔ یہاں اس جامع کے اندر میں نے دو کورسوں کو مکمل کیا ہے ۔ جس میں "تعلیمات اہل بیت (ع) کا تعارف" اور دوسرا قلیل مدتی زبان کا کورس بعنوان "فارسی زبان کا کورس" شامل تھا ۔ درج بالا کورسز 12 نومبر، 2022ء سے 12 دسمبر، 2022ء تک چلتے رہیں ۔ یہ کورسز 110 گھنٹے کے دورانیے کے تھے جہاں سرگرمی پر مبنی سیکھانا شامل تھا ۔
اس مختصر عرصے کے دوران مجھے وہاں کی کئیں اہم خانقاہوں اور تواریخی مقامات کی زیارت کا موقع بھی حاصل ہوا ۔ جن کی اپنی مذہبی اور تواریخی اہمیت ہے ۔ اُنہی میں سے موسیٰ ابن جعفر الکاظمؒ کی زیارت گاہ بھی شامل ہے ۔ آپؒ کا شجرہ نسب پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی دختر نیک خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نسب کے ذریعے سے جا ملتا ہے جو ساتویں نسل میں سے ہیں ۔

جمکران مسجد - ایران کے شہر قوم (Qom) کے مضافات میں واقع "جمکران" نامی ایک گاؤں ہے جہاں کی اہم مساجد میں سے ایک عالی شان مسجد " جمکران مسجد " کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ قوم سے چھ کلومیٹر دور مشرق میں واقع یہ مسجد طویل عرصے (تقریباً 373 ہجری) سے ایک مقدس رہی ہے ۔ مثلیح جمکرانی کے مطابق جمکرانی مسجد میں ہی بارہویں امام اور خضر علیہ السلام کے مابین ملاقات کی اطلاع ملتی ہے ۔ اس مسجد کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی یاد میں تعمیر کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ میں نے وہاں کی کچھ مشہور و معروف کُتب خانوں (Libraries) کا بھی دورہ کیا - جن میں موروشی کُتب خانہ (Murwashi Library) اور ملیک قومی کُتب خانہ و میوزیم انسٹی ٹیوشنMalek National) Library and Museum Institution) شامل ہیں ۔
مرعشی کُتب خانہ - یہ کُتب خانہ ایران کے مشہور و معروف علمی شہر قوم (Qom) میں واقع ہے ۔ یہ کُتب خانہ علم کا خزانہ ہے ۔ یہ علم و عرفان کا سنگم ہے ۔ جہاں تقریباً چالیس ہزار مخطوطات ملفوظات رکھے گئے ہیں ۔ اس کتب خانے کی سنگ بنیاد آیت اللہ العظمی سید مرعشی نجفی نے ڈالی ہے ۔ میری ان کے صاحبزادے آیت اللہ سید محمود موروشی حفظ اللہ سے ملاقات بھی خوشگوار رہی ہے ۔ جو میرے لئے واقعی کسی اعزاز سے کم ثابت نہیں ہوں گی ۔
ملیک قومی کُتب خانہ و میوزیم انسٹی ٹیوشن (MNLMI) ۔ یہ سر زمین ایران کے مشہور شہر تہران میں واقع ایک میوزیم اور قومی کُتب خانہ ہے ۔ یہ کُتب خانہ ایران کا پہلا نجی عجائب گھر ہے ۔ اور ملک کی چھ بڑی لائبریریوں میں سے ایک مانی جاتی ہے جس میں شاندار مخطوطات موجود ہیں ۔ یہ مجموعہ بہترین مخطوطات اور ایرانی تاریخی فن پاروں کا ایک بھرپور ذخیرہ ہے ۔ ہماری وہاں بامعنی اور مختصر ملاقات اِس کُتب خانہ کے موجودہ ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رضوان طالب صاحب اور یونیورسٹی کی پروفیسر محترمہ فرزانہ صاحبہ سے بھی ہوئی ۔ جنہوں نے مُسکراتے چہروں سے ہم سب کا استقبال کیا ۔
اُنہوں نے اس کُتب خانہ کی تواریخ اور علمی اعتبار سے اس کی اہمیت کے بارے میں ہمیں آگاہ بھی کیا ۔ یہ دنیا کے فنی ورثے کے بارے میں ایک کُتب خانہ اور عجائب گھر ہے ۔ جس میں ادب، موسیقی، رقص، فن تعمیر، مصوری، بنائی، مٹی کے برتن اور خطاطی سمیت بہت سے مضامین شامل ہیں ۔
اس کے علاوہ مجھے وہاں علامہ طباطبائی یونیورسٹی میں ایک اور باوقار اعلٰی تعلیم کی تحقیقی نشست پر جانے کا موقع بھی میسر ہوا ہے ۔ یہ یونیورسٹی تہران کے شہر میں واقع انسانیت اور سماجی علوم کی سب سے بڑی یونیورسٹی مانی جاتی ہے اور سرکردہ خصوصی عوامی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے ۔ یہاں تقریباً 15624 طلباء زیر تعلیم ہے اور 422 کل وقتی فیکلٹی ممبران ہیں ۔ یہ یونیورسٹی وزارت برائے سائنس، تحقیق اور ٹیکنالوجی کی زیر نگرانی میں اپنا کام کاج کرتی ہے ۔ اور اس کا نام علامہ سید محمد حسین طباطبائی (16 مارچ 1903ء - 15 نومبر 1981ء) کے نام پر رکھا گیا ہے ۔
علامہ طباطبائی ایک مشہور ایرانی اسکالر، تھیوریسٹ، فلسفی اور جدید شیعہ اسلام کے ممتاز مفکرین میں سے تھے ۔ وہ اپنی منفرد تفسیر " تفسیر المیزان " کے لیے بھی مشہور ہیں ۔ انھیں عام طور پر علامہ طباطبائی کے نام سے ہی جانا جاتا ہے ۔
الغرض اس تعلیمی سفر کے دوران مجھے کافی تجربات حاصل ہوئے ہیں جو میرے لئے سیر حاصل سفر بنا ۔ میں بذات خود ایران کے لوگوں کے کام کے کلچر سے، مہمان نوازی سے، سیکھنے کے دائرہ کار، جدید ٹیکنالوجی سے تعاون یافتہ تدریسی طریقہ کار، ایمانداری اور لگن سے بے حد متاثر ہوا ہوں ۔ جو وہاں کے رسمی و غیر رسمی ماحول میں ہر جگہ ظاہر ہوتا ہے ۔
مختصراً میں یہی کہوں گا کہ فارس (ایران) واقعی تہذیب کے گہواروں میں سے ایک ہے اور علم و عرفان کا سنگم ہے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .