۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
استاد جامعہ ناظمیہ لکھنؤ مولانا سید عبداللہ زیدی کا انتقال ہو گیا

حوزہ/ مولانا سید عبداللہ صاحب اعلی اللہ مقامہ کی سوانح حیات پر سرسری روشنی تاکہ قارئین کی خدمت میں ان کی زندگی کا کچھ خاکہ پیش کیا جاسکے۔ 

تحریر: مولانا سید رضی حیدر زیدی،انٹرنیشنل نور مائکرو فلم سینٹر،ایران کلچر ہاوس،دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | 31 اگست 2022 بروز بدھ بعد از ظہر مولانا سید عبداللہ زیدی صاحب کے ارتحال کی خبر سن کر بہت افسوس ہوا اور کافی دیر تک ان کی محبت و عطوفت کو یاد کرتا رہا میرے اور اہل وطن کے لئے یہ خبر کافی تکلیف دہ تھی مگر اللہ کی مرضی یہی تھی۔ مولانا مرحوم مہمان نواز، خوش اخلاق، ملنسار، منکسرالمزاج، مؤمنین بالخصوص اہل وطن کے ہردلعزیز عالم دین، اہل وطن آپ کا بہت احترام کرتے تھے کیونکہ جب بھی آپ وطن تشریف لاتے ہر کسی کی خبری گیری اور حال و احوال معلوم کرتے۔ میں مولانا سے ملاقات کے لئے لکھنؤ ان کے گھر گیا تو بہت خوش ہوئے اور میری تحریری سعی و تلاش اور تحقیق و تألیفی مصروفیات سے بہت خوش تھے اور انہوں نے اس راہ کو ادامہ دینے کی تلقین فرمائی۔ مولانا کی جدائی ان کے عزیزوں کے لئے بہت سخت مرحلہ ہے۔ میں اللہ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ رب کریم ان کی مغفرت فرما، جوار معصومین علیہم السلام میں جگہ عنایت فرما اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل و اجر جزیل عطا فرما آمین۔ میں نے ذیل میں مولانا سید عبداللہ صاحب اعلی اللہ مقامہ کی سوانح حیات پر سرسری روشنی ڈالی ہے تاکہ قارئین کی خدمت میں ان کی زندگی کا کچھ خاکہ پیش کیا جاسکے۔

مولانا سید عبداللہ زیدی صاحب 5 اکتوبر 1950ء میں سرزمین پھندیڑی سادات ضلع امروہہ صوبہ یوپی پر پیدا ہوئے۔ آپ سن 1954عیسوی میں وطن کے سرکاری اسکول میں داخل ہوئے اور تعلیمی سلسلہ کا آغاز کیا۔ مولانا نے قرآن اور احکام کا درس اپنے والد جناب حکیم سید ذوالفقار علی صاحب اور مولانا ارتضی حسین ناطق پھندیڑوی صاحبان سے حاصل کیا۔ آپ سنہ 1960ء میں عازم میرٹھـ ہوئے اور مدرسه منصبیہ میں جید اساتذہ کی سرپرستی میں تعلیمی سفر کو جاری رکھا۔ آپ سنہ 1970ء کے آس پاس مدرسہ منصبیہ میرٹھ سے فراغت حاصل کرکے اپنے وطن واپس آگئے اور مدرسہ امامیہ (حیات الاسلام) میں قرآن اور احکام کی تدریس میں مشغول ہوگئے۔ آپ نے اس مدرسہ میں تقریباً پانچ سال تدریس کے فرائض انجام دیے پھر اس کے بعد سنہ 1975عیسوی میں مدرسه ناظمیه لکھنؤ کا رخ کیا اور جید اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرکے علمی مدارج کو طے کیا اور ایک سال یا اس سے زاید تحصیل علم کے بعد آپ سنہ 1976 میں آیت اللہ حمید الحسن تقوی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں وظیفہ تدریس کی انجام دہی میں مشغول ہوگئے۔
آپ نے تدریسی سلسلہ 30 جون 2013عیسوی تک جاری رکھا اور دوران تدریس، علم دین کی مزید تحصیل کے شوق میں مدرسہ سے چٹھی لےکر قم المقدس ایران کا سفر کیا اور وہاں رہ کر جید اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا۔ اور ایران سے واپسی پر مدرسہ ناظمیہ میں تدریسی سلسلہ کو سبکدوشی تک جاری رکھا۔ مرحوم و مغفور مدرسہ ناظمیہ سے بہت محبت کرتے تھے ایک مرتبہ آپ کو علیگڑھ یونیورسٹی سے آفر ملا تو آپ نے قبول نہیں فرمایا اور مدرسہ ناظمیہ میں خدمت کو ترجیح دی۔

مولانا سیدعبداللہ نوراللہ مرقدہ الشریف اپنے وقت کے بہترین شاعر بھی تھے آپ نے قصائد، قطعات، سلام اور نظمیں کہیں ایک نظم انقلاب ایران کی روشنی میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی مدح میں کہی جس کا مطلع ہے: "خیر ہی آغاز تیرا خیر ہی انجام ہے+ وہ ہے تو جس کا کہ روح اللہ خمینی نام ہے"۔ دوسری نظم ایران کے لئے کہی جس کا مطلع ہے: موضوع کائنات ہے ایران آج کل + ریگن بھی ہو رہا ہے پریشان آج کل۔ مولانا کے کلام کا مجموعہ ان کے بچے مرتب کر رہے ہیں انشاء اللہ مستقبل قریب میں منظرعام پر آنے کی توقع ہے, آپ بہت اچھے مبلغ اور ہمدرد قوم و ملت و دین تھے ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ کو لکھنؤ کے باہر براہیں عقد نکاح کے لئے بلایا گیا جب آپ وہاں پہنچے تو گانا بجانا ہورہا تھا آپ نے منع کیا اور جب وہ لوگ نہ مانے تو وہاں سے رات ہی میں بغیر نکاح پڑھے پیدل ہی لکھنؤ واپس آگئے آپ نے نہ کسی طرح کا لالچ کیا اور نہ ہی خوف زدہ ہوئے, آپ نے ہندوستان میں تبلیغی سفر بہت کیے جن میں: بڈولی ضلع مظفر نگر، غازی پور، جھنجھانا مظفر نگر۔ بوڑ پور بجنور۔تھیتکی سہارنپور۔ فتح پور۔ صفی پور اناؤ۔ ہردوئی وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ علامہ جوادی نے فتح پور سے واپسی پر آپ کی پرخلوص اور برجستہ تبلیغات کی بناء پر آپ کو فاتح فتح پور کے خطاب سے بھی نوزا تھا, لکھنؤ میں آپ کی رہائش پہلے حیدری ہاسٹل وکٹوریہ اسٹریٹ چوک لکھنؤ میں تھی اور 2016ء سے ہری نگر جل نگم روڈ بالا گنج لکھنؤ میں اپنے بچوں کے ساتھ سکونت پذیر تھے۔ اور سنہ 2019 ء سےکمزوری کی وجہ سے سفر نہیں کر پاتے تھے, اپنے وطن سے بہت محبت فرماتے تھے جب تک توانائی رہی وطن بار بار آتے رہے اور مؤمنین بھی آپ کا بہت احترام کرتے تھے, اور 31 اگست 2022 کو طویل علالت کے بعد آپ نے اس دار فانی سے دار بقا کی طرف رحلت کی آپ کی وطن سے محبت حد درجہ تھی اور بچوں سے وطن ہی میں تدفین کی وصیت فرمائی تھی۔

نوٹ: مؤمنین اور علماء نے اپنے تاثرات اور تعزیت نامہ ان کے خانوادہ کو پیش کیے جن کو ان کی سوانح حیات اور کچھ منتخب دعاؤں اور سوروں کے ھمراہ ان کے فرزند نے مرتب کیا جس کی پی ڈی ایف نیچے دیے ہوئے لنک میں قاریین کی خدمت میں حاضر ہے۔

پی ڈی ایف فائل حاصل کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • تفضل حسینی بنارس IN 08:14 - 2022/11/25
    0 0
    اللہ مولانا کی مغفرت فرمائے اور حوزہ نیوز کو ترقی عطافرمائے