حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حسین حامد؛ نگراں سیکریٹری معاون کمیٹی تنظیم المکاتب کشمیر نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کے عظیم فریضہ کو بروئے کار لاکر دین خدا اور سنت پیغمبر (ص) کو پھر سے زندہ کرنے اور نبی اکرم (ص) کے وفات کے بعد ایجاد کردہ تمام بدعتوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے ہی بس قیام فرمایا۔
انہوں نے کہا کہ آئمہ معصومین علیھم السلام اللہ کی طرف سے امت کے پیشوا قرار دئے گئے ہیں۔تبلیغ و تبیین دین مبین اسلام اور دشمنان و منافقین دین خدا کے ایجاد کردہ بدعتوں‘ تحریفوں اور جاہلانہ سرگرمیوں کے خلاف نبرد آزما ہونا آسمان عصمت و عفت کے ان روشن ستاروں کا اہم الٰہی فریضہ ہے۔احکام شریعت کو نافذ کرنے نیز عدل و توحید کو ترویج دینے کی اعلیٰ ترین صلاحیت و لیاقت ولایت الٰہی کے ان ؑ علمبرداروں کو ہی حاصل ہے۔
تنظیم المکاتب کشمیر کے رہنما نے کہا کہ تاریخ عالم گواہ ہے کہ رسول اکرم (ص) نے اپنی وفات اور اس سے پہلے اپنی علمی میراث حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کردی تاکہ یہ میراث حقیقی بتدریج باقی ائمہ طاہرین علیہ السلام یہاں تک کہ ہمارے آخری امام حضرت ولی العصر عج اللہ تعالیٰ فرجہٗ الشریف تک پہونچ جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وفات مرسل اعظم (ص) سے لیکر یزید پلید کے غصب کردہ دور خلافت تک وہ سارے عجیب حادثات و واقعات‘ نئے نئے نظریات‘ غیر اسلامی طرز فکر اور ارتجاعی افکار جو ناحق وجود میں لائی گئیں تھیں اور جنہوں نے دین کا اصلی چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا تھا امام عالی مقام حضرت حسین علیہ السلام کے زیر نظر تھے آنجناب علیہ السلام مشاہدہ کر رہے تھے کہ کیسے حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کیا جارہا ہے۔کیسے زمانہ جاہلیت کے منحوس دور جیسے قبائلی اور نسلی تعصبات کو پھر سے ہوا دی جارہی ہے۔بیت المال کی بربادی اور اس کی نا عادلانہ تقسیم کاری عملی جارہی ہے۔ ریاست و منصب پانے کا معیار رشتہ داروں کو قرار دیا جارہا ہے۔گویا عالم اسلام کی حکومت بنی امیہ سے ہی مخصوص ہوکر رہ گئی تھی۔ رذائل اور کثافتوں کے مجموعہ یزید پلید نے اسلام کے خالص اور صحیح عقائد کو دبا کے رکھا تھا اور اپنی ظالم اور غاصب حکومت کے بقا و دوام کے لئے جعل سازی اور تحریف کا سہارا لیا تھا۔عقائد اسلام کو الٹ پلٹ کر جبراً لوگوں کے حوالے کیا جانے لگا تھا۔
جناب حسین حامد نے کہا کہ رسول خدا (ص)کی جس خلافت و جانشینی کا اعلان آغاز رسالت ہی سے ہوا تھا افسوس اُس خلافت کو اس بلندی سے نیچے اتارا گیا تھا کہ انتہائی رذیل و کثیف یزید پلید کے ہاتھوں میں جبراً آئی ہوئی تھی۔ فاسق و فاجر یزید ملعون کی مخالفت حرام شمار ہونے لگی تھی اور مخالفت کرنے والوں کو واجب القتل سمجھا جانے لگا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ بالا انحرافات اور ان جیسے دیگر خرافات اور گمراہیوں کی وجہ سے صرف نام کا اسلام باقی رہ گیا تھا ان حالات میں امام حسین علیہ السلام سے یزید ملعون کی بیعت کا تقاضا کیا جارہا تھا جسکے جواب میں امام عالی مقام نے برملا فرمایا کہ ’’ یزید ایک فاسق و فاجر‘ شراب خوار اور قاتل انسان ہے کہ اس کا فسق و فجور عیاں ہے اور مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب لوگوں کو حقیقی اسلام سے روشناس کرانا امام عالی مقام کا امامت کے فرائض میں سےایک اہم فریضہ تھا۔اس لئے امام علیہ السلام نے امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے عظیم فریضہ کو بروئے کار لاکر دین خدا اور سنت پیغمبر (ص) کو پھر سے زندہ کرنے اور نبی اکرم (ص) کے وفات کے بعد ایجاد کردہ تمام بدعتوں کو نیست و نابود کرنے کے لئےہی بس قیام فرمایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام عالی مقام علیہ السلام قرآن کریم کی اس آیہ مبارکہ ’’قل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا‘‘ کے مصداق ٹھہرے۔ عصر عاشوراء اپنی اور اپنے باوفا اصحاب و اقارب کی جانگداز شہادت عظمیٰ سے حق کا بول بالا کر دیا اور باطل کو ہمیشہ کے لئے ذلیل کرکے رکھ دیا۔