۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
خدمت رسانی کودکان به زائران در مسیر پیاده روی اربعین حسینی

حوزہ/ولایتِ الٰہی کے علمبردار امام عالی مقام سید الشہداء حضرت حسین علیہ السلام کا حق و صداقت کی پائندہ سربلندی اور باطل کی دائمی سرکوبی کے لئے قیام کرنا تاریخ عالم میں ایک ایسی لاثانی اور لافانی تحریک ہے جس نے مستضعفین عالم کو روز اول سے یہ ولولہ بخشا ہے کہ حق کا بول بالا اور انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے ہر چند کوئی بھی قربانی پیش کی جاسکتی ہے۔

تحریر: حسین حامد

حوزہ نیوز ایجنسی | ولایتِ الٰہی کے علمبردار امام عالی مقام سید الشہداء حضرت حسین علیہ السلام کا حق و صداقت کی پائندہ سربلندی اور باطل کی دائمی سرکوبی کے لئے قیام کرنا تاریخ عالم میں ایک ایسی لاثانی اور لافانی تحریک ہے جس نے مستضعفین عالم کو روز اول سے یہ ولولہ بخشا ہے کہ حق کا بول بالا اور انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے ہر چند کوئی بھی قربانی پیش کی جاسکتی ہے، اسی لئے آج جہاں میں جہاں بھی استعمار و استکبار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے وہ حسینیت کی ہی ترجمانی نظر آتی ہے کیونکہ امام عالی مقام علیہ السلام کی کرب و بلا کے ریگزار پر پیش کی گئی عظیم ترین قربانی کسی بھی مذہب ‘ مسلک اور جغرافیائی حدود سے یکسر بالاتر ہے نیز اقوام عالم جانتی ہے کہ حق اور حسین ؑلازم و ملزوم ہیں۔اس عظیم تحریک نے بغض اہلبیت رسول ؐ سے مخمور حلال خدا کو حرام کرنے والے‘ حرام خدا کو حلال کرنے والے ‘ اللہ اور اللہ کے بندوںکے حقوق پر شب خون مارنے والے منافقین اسلام کو تا ابد ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا اور ان کی منافقت کے قصوں کو عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے سامان عبرت بنا دیا۔اسطرح عالم انسانیت کو عزت و وقعت کے ساتھ زندہ رہنے کا ایک دائمی نقشہ راہ فراہم ہوا۔

سانحہ کربلا ایک عظیم معرکہ جاودانی کا نام ہے جس کی مسلسل تبلیغ کہ کیوں وجود میں آیا احیاء ِ دین ہے۔یہ ایک مجرد مقام ہے جہاں ولایت الٰہی کے وارث امام حسین علیہ السلام اور انکے اعوان و انصار علیھم السلام نے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرکے ایک مثالی اور تاریخی کارنامہ انجام دیا جس کی تر و تازگی میںآج چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ان شہداء کرب و بلا علیھم السلام پر قرآنی آیت’’ جَآء الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقَا‘‘ کے معنی کا اطلاق ہو کربنی نوع انسان کو حق نوائی اور شعوری دینداری کا درس جاودانی حاصل ہوا ہے۔

شعوری دینداری اور بے شعور دینداری میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ان کا آپس کا بہت بڑا ٹکراؤ ہے ۔شعورِ کربلا نے ہمیں دینداری کا شعور بخشا ہے اور سکھا دیا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بیک وقت پاسداری ہی کامل شعوری دینداری ہے ۔ہم باقاعدہ گی سے نماز پڑھیں اور روزہ رکھنے کے از حد پابند ہوں لیکن ایذا رسانی ‘جھوٹ ‘ غیبت ‘ تہمت ‘چغلخوری وغیرہ جیسی اخلاقی بیماریوں کے مریض ہوں ۔یہ بے شعور دینداری ہے۔امام حسین علیہ السلام کے عزادار ہوں‘ماتم کناں اور نوحہ خواں ہوں لیکن اہلبیت علیھم السلام کاایک اہم حق یعنی خمس ادا کرنے کے پابند نہ ہوں یہ بے شعور دینداری ہے۔ماتمی جلوسوں میں ہماری خواتین اس وضع سے شرکت کریں کہ بے پردہ گی کا برملا اظہار ہو یہ بے شعور دینداری ہے۔عزاداری ٔ شہداء کربلا میں اگر راتیں بھی گزر جائیں تو کار ثواب ہے لیکن ان راتوں کی آئی صبح کی واجب نماز اگرقضا کی جائے تو یہ بے شعور دینداری ہے۔ہمارے امام بارگاہوں اور عزابخانوں میں لاؤڈ اسپیکرز کی نہایت ہی اونچی آواز کی وجہ سے باہر کسی کو تکلیف ہو نیز جسکی وجہ سے واعظ اور مرثیہ خواں کی بات بالکل ہی appealing نہ ہو اور ایسے میں تبلیغ دین کا مقصدبھی پورا نہ ہو شعور کربلا کے عین منافی ہے۔جلوس عزا کے دوران اگر اہم راہیں دیر گئی تک مکمل بند رہ جائیں اور عوام الناس پریشان ہوں شعوری دینداری کے شایان شان نہیں ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے رسول ؐ لوگوں کے لئے حجت ہیں یعنی احکام دین و شریعت جاری کرنے والے ہیں‘امام رسول اللہ ؐ کی طرف سے اللہ کی ولایت کو جاری کرنے والے ولی الامر متعین ہیں اور ولی فقیہ امام کی جانب سے ولایت الٰہی کے جاری کرنے کے لئے مقرر کئے ہوئے ہیں۔شعوری دینداری کی اصل تصورِ ولایت فقیہ ہی ہے جس کی بالادستی کربلا میں موجود ہے۔کربلا کی جنگ زمانوں سے برابر لڑی جارہی ہے۔آج ہم میں اگرکسی سے اتباعِ ولایت فقیہ نہ ہو تو گویا وہ اعلان غدیر کے جوہر کے منکروں میں شمار ہے اور جاری معرکہ کربلا میں یزیدیت کے ساتھ حسینیت کے خلاف برسر پیکار ہے۔ایسا شخص جس طرح کی دینداری کا مظاہرہ کرے وہ بے شعور دینداری ہی ہوگی۔غرض کربلا کے پس ِ منظر اور پیشِ منظر پر نظر ہو تو پتہ چلے گا کہ یہ خالص شعوری دینداری کا درسِ جاودانی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .