۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
پونہ عشرہ

حوزہ/ کربلا اس پیغام رسول رحمت (ص) کا تسلسل ہے جہاں آپ نے لوگوں کی محبوس فکروں کو آزاد کیا انہیں خرافات و جہالت کی زنجیروں سے چھڑایا "معدہ" کی حد تک سوچنے والوں کو تصور "معاد" سے آشنا کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہر سال کی طرح اس سال بھی شہر پونہ کے ایرانی امام باڑے میں ہونے والا مرکزی عشرہ کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا جس میں مومنین کی کثیر تعداد نے بلا تفریق مذہب و ملت شرکت کی اور حضرت سید الشہدا ع و انکے با وفا اصحاب کی شہادت کا غم منایا ۔اس عشرہ کو حجہ الاسلام والمسلمین مولانا سید نجیب الحسن زیدی ( امام جماعت مغل مسجد) نے خطاب کیا۔

مولانا نے 10 دن تک حسین اور حیات کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کربلا کے حیات آفریں گوشوں کو پیش کیا، دس دن کے اپنے خطاب کے دوران تاریخی واقعات اور روایات کی روشنی میں خطیب مجلس نے واضح کرنے کی کوشش کی کہ سید الشہداء (ع) نے اپنی قربانی کے ذریعہ ہمارے سامنے جو شاہراہ حیات رکھی ہے اس پر اگرچہ چلنا سخت ہے اور چیلنجز زیادہ ہیں لیکن زندگی ان رکاوٹوں کو عبور کئیے بغیر زندگی ہی نہیں ہے۔زندگی میں مزہ تو تب ہی ہےجب اپنے مالک کی جانب سے معین لئیے گئے مقصد کو لیکر آگے بڑھا جائے۔ ان مجالس میں مولانا نے "آزادی" ایثار" حیا" وفا" جذبہ صبر و رضا اور "بصیرت" جیسے مفاہیم پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کو بیان کیا کہ حقیقی حیات کا مفہوم اگر مکمل طور پر ہمارے لئے واضح ہو سکتا ہے تو وہ کربلا ہے۔ اس لئے کہ کربلا اس پیغام رسول رحمت (ص) کا تسلسل ہے جہاں آپ نے لوگوں کی محبوس فکروں کو آزاد کیا انہیں خرافات و جہالت کی زنجیروں سے چھڑایا "معدہ" کی حد تک سوچنے والوں کو تصور "معاد" سے آشنا کیا۔

انہوں نے کہا: آج اگر ہم اپنے ملک میں نفرتوں لے لپکتے شعلوں کے درمیان انسانیت کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسی وقت کامیابی مل سکتی ہے جب معدہ سے اوپر اٹھ کر سوچیں ۔ہمارے سامنے کربلا کا ایسا بڑا پلیٹ فارم بھی موجود ہے جہاں ملک میں بسنے والے تمام مذاہب و مسائل کو بلا تفریق " محبت حسین (ع) پر جمع کیا جا سکتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ شب عاشور منعقد ہونے والی مجلس میں ایرانی قونصل جنرل جناب آقای علی خانی و انکے معاون جناب مفیدی فر کے ساتھ ممبئی قونصلیٹ کے دیگر اعلی عہدے دار بھی مجلس موجود رہے ۔

بعد مجلس روایتی جلوس عزا تزک و احتشام کے اپنے معین راستوں سے ہو کر اختتام کو پہنچا جس میں اردو کے ساتھ ساتھ فارسی نوحے بھی خوبصورت و دلنشین انداز میں پڑھے گئے اور بارش کی رم جھم میں اپنے آنسووں کی برسات لئے عزاداران سید الشہدا (ع) نے اپنے آقا و مولا سے تجدید عہد کیا۔ یاد رہے کہ مجلس کی طرح جلوس میں بھی کثیر تعداد میں دیگر مذاہب سے متعلق حریت پسندوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر بار کی بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ عزاداری سید الشہدا ء کے تمام پروگرام منعقد ہوئے اور پروقار انداز میں اپنے اختتام کو پہنچے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .