حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عالمہ سیدہ بشری بتول نقوی تہران میں جاری عشرہ مجالس کی آخری مجلس میں کربلا کے تربیتی نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کربلا سے ہمیں درس بصیرت حاصل کرنا چائیے انہوں نے کہا کہ کربلا کی یاد مناتے ہوئے ہمیں چند مہم باتوں کو یاد رکھنا یوگا۔
پہلا یہ کہ قیام امام کا مقصد کیا تھا تاکہ ہم عزاداری کی اصل روح کی جانب متوجہ ہوسکیں، انہوں نے مزید کہا عزاداری کو فقط گریہ و ماتم میں محصور نہ کریں۔بلکہ کربلا کے ہر فرد سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جسے سمجھنے کے بعد ہم صحیح معنوں میں اسلام پر عمل پیرا ہو کر ایک عظیم اور لازوال معاشرے کو تشکیل دے سکتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ ہمیں کربلا میں موجود باطل پرست کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کونسے افکار فاسد تھے جس نے انکو قتل امام پر اکسایا۔
تیسرا یہ کہ ہمیں اپنے وقت کے امام کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پہلے کربلا کے مقاصد کو بصیرت کے ساتھ سمجھیں اسپر عمل کرتے ہوئے بتدریج ظہور امام عج کیلے آمادگی کو اپنا ہدف قرار دیں۔
عالمہ بشری بتول نے اہم نکتے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے کربلا کو صرف گریہ ماتم میں محصور کردیا اور بصیرت کے ساتھ مقصد کربلا کو نہیں حاصل کیا تو کوفیوں کی طرح خدانخواست ہم وقت کے امام عج کے منتظر ہوتے ہوئے بھی امام کی نصرت صحیح معنوں میں نصرت نہ کرسکیں۔۔
انہوں نے مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے قوم کے بچوں اور نوجوانوں کو حقیقی دین سے روشناس کرونا ہوگا کیوں کہ جس قوم کی نوجوان نسل صراط مستقیم پر آجائے اس قوم کو کبھی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
آخر میں مصائب علی اکبر (ع) ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں علی اکبر علیہ السلام جیسے نوجوان معاشرے کی اصلاح کیلے درکار ہیں۔