۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور میں بین المذاہب اور بین المسالک کانفرنس کا انعقاد

حوزہ/ کانفرنس سے خطاب میں سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ امام حسین (ع) ایک دور کی شخصیت نہیں، امام حسین (ع) کی زیست صرف درسی کتابوں میں ایک آدھ باب تک محدود نہیں بلکہ آپ(ع) قیامت تک آنے والے ہر باضمیر انسان کے رہبر ہیں۔ مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، چارلس ڈکن، انتونی بارا اور ان جیسے ہزاروں غیر مسلم دانشور اور لکھاری دین اسلام کے پیروکار نہیں تھے، اس کے باوجود اس واقعہ کی عظمت و بزرگی نے ان کی عقلوں کو در حسین پر سجدہ ریزی پر مجبور کیا۔ وہ حسین کو امام یا صحابی نہیں مانتے بلکہ ان کے لیے حسین انسانیت کا نمونہ ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ امام حسین علیہ السلام محسن انسانیت ہیں جنھوں نے اعلٰی انسانی اقدار کو زندہ رکھنے اور مقام انسانیت کے شرف و عظمت کو بچانے کے لئے لازوال قربانی پیش کی ہے۔

تصویری جھلکیاں: جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور میں بین المذاہب اور بین المسالک کانفرنس کا انعقاد

ان خیالات کا اظہار جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے عمائدین اور رہنماوں نے بین المذاہب اور بین المسالک کانفرنس ‘‘حسینؑ سب کا’’ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کی صدارت تحریک بیداری امت مصطفیٰ اور مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کی۔ کانفرنس میں پیر سید محمد حبیب عرفانی صاحب (سندر شریف)، آرچ بشپ سبیسٹین شاء (کیتھریڈل چرچ)، فادر جمیز چنن او پی (ڈائریکٹر پیس سینٹر)، مادریٹر ڈاکٹر مجید ایبل (نولکھا چرچ)، پنڈت بھگت لال کھوکھر (بالمیکی سوامی مندر)، سردار بشن سنگھ ۔سابق پردھان گردوارہ پربندھک کمیٹی، علامہ عبد الخبیر آزاد (چیئرمین روئیت ھلال کمیٹی)، مفتی زبیر فہیم (صدر اتحاد المدارس العربیہ)، علامہ محمد عاصم مخدوم (چیئرمین کل مسالک علماء بورڈ سمیت دیگر شریک ہوئے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ کربلا ایک عالمی اور آفاقی تحریک ہے، کیونکہ ظلم سے نفرت تمام ادیان و مذاہبِ میں مشترک ہے اور امام حسین (ع) نے پوری انسانیت کو بیداری اور ظلم کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا درس دیا تھا۔ حضرت امام حسین ّ کی شخصیت کسی فرقے یا مذہب کے اندر محدود نہیں نہ ہی کسی طبقے اور قوم کے ساتھ مخصوص ہے یہاں تک غیر مسلم ہندو، زرتشتی، مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں، گاندھی اپنے انقلاب کو حسین ابن علی علیہ السلام کی مرہون منت سمجھتا ہے، یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا۔

کانفرنس سے خطاب میں سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ امام حسین (ع) ایک دور کی شخصیت نہیں، امام حسین (ع) کی زیست صرف درسی کتابوں میں ایک آدھ باب تک محدود نہیں بلکہ آپ(ع) قیامت تک آنے والے ہر باضمیر انسان کے رہبر ہیں۔ مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، چارلس ڈکن، انتونی بارا اور ان جیسے ہزاروں غیر مسلم دانشور اور لکھاری دین اسلام کے پیروکار نہیں تھے، اس کے باوجود اس واقعہ کی عظمت و بزرگی نے ان کی عقلوں کو در حسین پر سجدہ ریزی پر مجبور کیا۔ وہ حسین کو امام یا صحابی نہیں مانتے بلکہ ان کے لیے حسین انسانیت کا نمونہ ہے۔ ان کے لیے حسین آزادی و حریت کی مثال ہے۔ ان کے لیے حسین انسانیت کی معراج ہے۔ ان کی نظر میں حسین انسانوں کا امام اور قائد ہے۔ وہ حسینیت کو کامیابی کا استعارہ سمجھتے ہیں۔ حسین نے انہیں فتح اور کامیابی کی راہ بتائی۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ گروہ جو استبدادی فکر و فلسفہ کے حامل ہوتے ہیں وہ کربلا اور درس کربلا سے خوف میں مبتلا رہتے ہیں، کیونکہ کربلائی فکر انکے استبدادی نظام کو ڈھا سکتی ہے۔ جب بھی کوئی کربلا و حسینیت کو اساس بنا کر ظلم اور استبداد کے خلاف اٹھے گا کامیابی اسکے قدم چومے گی۔حسین (ع) نے رہتی دنیا تک انسانوں کو حریت اور آزادی کا درس دیا اور انہیں خبردار کرایا کہ اگر کہیں عزت و حمیت کا مسئلہ ہو، اگر کہیں اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے کی بات ہو تو ڈرو مت، آگے بڑھو، باطل کے مقابلے میں سیسہ پلائی فولاد کی مانند ڈٹ جاؤ اور ظلم و ستم کی زنجیریں توڑ ڈالو، چاہے اس راہ میں تمھیں اپنی جان، مال اور سب کچھ کیوں قربان نہ کرنا پڑے اور آج دنیا بھر میں آزادی کی جو تحریکیں نمودار ہو رہی ہیں، انہوں نے یہ درس کربلا اور عاشورا سے لیا ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ آج نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کا ہر آزاد فکر انسان حسین (ع) کا عاشق، گرویدہ اور مداح ہے۔

آخر میں مقررین نے پرامن بقائے باہمی اور انسانی ہمدردی کی اقدار کو معاشروں میں رائج کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ تب ہوگا جب مختلف ادیان ومذاھب کے پیروکاراور مکاتب فکر کے ماننے والے آپس میں احترام کا رشتہ برقرار رکھیں اورایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ایسی تقریبات کے سبب اسلام اور ظلم سے نفرت کرنے والے دیگر مذاہبِ کے باہمی تعاون کو فروغ ملے گا، مغربی ممالک میں اسلام کو خطرہ بنا کر پیش کرنے کی سیاست کا خاتمہ ہوگا؛ نیز اس باہمی تعاون سے دنیا کے محروم اور مستضعف لوگوں کی حالت بدل جائے گی اور ان پر مسلط کردہ ظالمانہ فضا کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ انشااللہ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .