تحریر: مولانا شاہد عباس ہادی
حوزہ نیوز ایجنسی। حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی ذات فضائل و کمالات کا پہاڑ ہے۔ شجاعت کے میدان میں قدم رکھیں تو شجاعت کی معراج، وفاؤں کی تلاش ہو تو اخلاص و وفا کا پیکر، قوت و ہیبت کے سمندر میں غوطہ زن ہوں تو قوت و ہیبت کا بیکران سمندر نظر آتے ہیں۔ عاجز قلم سے ایسی شخصیت پر لکھنا دشوار ہے جس نے دنیا کے سب سے عظیم باپ اور مہذب ماں کی آغوش میں تربیت پائی ہو، جو ہرمجبور و بےکس کی پناہ گاہ ہو اور ہر امیدوار کی امید کا مرجع ہو، جن کی شجاعت یہ ہے کہ آپ کا چہرہ دیکھ کر دشمن پر خوف طاری ہوجائے اور دشمن آپکی شان میں جسارت کرنے سے پہلے کانپ اٹھے، عباس وہ شیرِ جواں تھے جس کی ہیبت اور شجاعت و بہادری سے دشمن کانپنے لگتے تھے اور ان کے چہروں کا رنگ اڑ جاتا تھا۔ جی ہاں! اس جانباز کے بارے لکھنے سے قلم عاجز ہے کہ بازو قطع ہوجانے کے بعد بھی فرماتے ہیں "خدا کی قسم! میں آخری سانس تک دین کا دفاع اور امامِ وقت کی اطاعت کروں گا۔"
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے
ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے
سب ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
جب آپ کے پاس شمر امان نامہ لےکر آیا تو مولا عباس(ع) نے یہ کہہ کرواپس کردیا کہ "تجھ اور تیرے امان نامے دونوں پر لعنت ہو۔ ایک نگاہ دور حاضر کی شجاعت پر ڈالتے ہیں، جب امریکہ و اسرائیل اور بڑی بڑی عالمی طاقتیں حزب الله کے سامنے عاجز آگئیں، جب ان گیڈر بھبکیوں سے مقاومت اسلامی کو ڈرایا نہ جا سکا، پھر سید العرب سید حسن نصرالله کیلئے امان نامہ لایا گیا تو حضرت عباس علیہ السلام کے اس غلام نے دشمن سے مخاطب ہوکر فرمایا "کیا تم مجھے امان نامہ دیتے ہو! جبکہ فلسطین کی عوام اور بچوں پر ظلم ہورہا ہے، کیا تم مجھے امان نامہ دیتے ہو! جبکہ یمن کی عوام و بچوں پر ظلم ہورہاہے، سن لو اے ظالم و جابر لوگو! تم اور تمہارے امان نامے دونوں پر لعنت ہے۔" یہ منزل معرفت امامِ وقت اور معرفت عباس(ع) تھی کہ جب 61 ہجری کی کربلا میں میرے آقا و مولا عباس علیہ السلام نے اپنے دور کی سب سے بڑی طاقت کے نمائندے سے امان نامہ قبول نہیں کیا تو آج کی کربلا میں ان کا ادنی غلام آج کی یزیدی طاقت کے مکتوب کو کھول کرکیا کرے گا۔
اگر مولا عباس علیہ السلام کے تمام فضائل و کمالات سمیٹ کر ایک لفظ میں بیان کئے جائیں تو یہ آپکا اخلاص تھا، وفا تھی، یہ مقام امامِ وقت کی اطاعت تھا۔ جتنا انسان خدا کیلئے خالص و مخلص ہوگا اتنا ہی امامِ وقت کے سامنے خاشع ہوگا اور جتنا امامِ وقت کے سامنے خاشع ہوگا اتنا ہی ظالموں کے سامنے سخت و بے باک ہوگا۔ آپ کے فضائل کا سمندر اس قدر گہرا ہے کہ جہاں قدم رکھنا بھی ممکن نہیں، فقط ساحل پر کھڑے ہو کر اس سمندر کے پانی کو چُلّو میں سمانے سے انسان کا اپنا ظرف بھر جاتا ہے مگر فضائل ختم نہیں ہوتے اور شاید نوکِ قلم میں اس سے بڑھ کر آپ(ع) کے اوصاف بیان کرنے کی طاقت نہیں، اسی لیے ہر کسی کے قلم کی نوک، میرے قلم کی طرح یہاں آ کر ٹوٹ گئی ہے۔