تحریر: اجمل قاسمی
حوزہ نیوز ایجنسی। نائیجریا کے معروف عالم دین، شیعیان نائیجیریا کے قائد اور تحریک اسلامی نائیجیریا کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ ابراہیم زاکزاکی اور ان کی اہلیہ کو عدالت نے چھ سال کی قید و بند کے بعد گزشتہ روز بے بنیاد کیسز سے بری کردیا جس کے بعد انہیں سرکاری جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے قارئین کی خدمت میں مختصر معلوماتی تحریر پیش ہے۔
نائجیریہ کا مختصر تعارف :
نائیجیریہ براعظم افریقہ کے 55ممالک میں سے سب سے بڑا 18کروڑآبادی والاملک ہے۔36ریاستوں پرمشتمل یہ ملک یکم اکتوبر1960ء کوبرطانیہ سے آزادہوا۔مغربی افریقہ کاسب سے بڑا دریانائیجریہ اِسی ملک سے ہوکرگزرتاہے اوراِسی دریاکے نام پراِس ملک کانام نائیجیریہ پڑا۔براعظم افریقہ کے پہلے اوردُنیاکے آٹھویں گنجان آبادملک میں پچاس فیصد مسلمان ، چالیس فیصدعیسائی اورباقی مقامی عقائد رکھنے والے لوگ آبادہیں۔پچاس فیصدمسلمانوں میں دس فیصد شیعہ کمیونیٹی ہے جوپونے دوکروڑکے لگ بھگ بنتی ہے۔ نائجیریہ کے مسلمان فقہ مالکی پر عمل کرتے ہیں تیل پیداکرنے کے حوالے سے دنیاکاآٹھواں بڑا ملک ہونے کے باوجود 64فیصدآبادی غربت کی زندگی گزارنے پرمجبورہے .حالیہ چند سالوں میں تشیع میں روز بروز اضافے کی وجہ سے اسرائیل اور وہابیت نائجیرین عوام کے جانی دشمن بن گئے ہیں، دشمن مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی بھرپور سعی کر رہا ہے۔
شیخ ابراہیم زاکزاکی :
شیخ زکزاکی ۱۹۵۳ کو زاریا شہر میں پیدا ہوئے انہوں نے اپنی ابتدائی دینی تعلیم وہیں آبائی شہر میں حاصل کی، جس کی وجہ سے انکے لئے شیعہ مذہب کا مطالعہ آسان ہوگیا اور وہ مطالعہ کے بعد شیعہ ہوگئے۔ شیخ ابراہیم زکزاکی نے ۱۹۷۱ سے ۱۹۷۵ تک کانو شہر میں سیاسی علوم اور اقتصاد میں تحصیل علم کرنے کے بعد دوبارہ زاریا چلے گئے اور نائیجیریہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی بلو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ۔ جب وہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہےتھے اسی دوران ایران میں اسلامی انقلاب رونما ہوا ۔ شیخ ابراہیم زاکزاکی ملت جعفریہ نائیجیریہ کے قائد، اسلامی تحریک نائجیریہ کے سربراہ اور رہبرِ مسلمینِ جہاں آیت اللہ السید علی خامنہ ای کے نائجیریہ کے لئے نمائندے بھی ہیں۔ جن کے اعلٰی اخلاق کی وجہ سے تمام مسلمان بشمول شیعہ و سنی حتیٰ کہ عیسائی بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ شیخ زکزاکی نے خود بھی امام خمینی کے افکار سے متاثر ہوکر شیعہ مذہب اختیار کیا اور اب تک دوکروڑ لوگوں کو شیعہ کرچکے ہیں۔ شیخ زکزاکی 1980ء کے عشرے میں 9سال تک فوجی حکمرانی میں سول نافرمانی کے الزام میں سیاسی قیدی رہے مختلف اسلامی کانفرنسز اور سیمینارز میں شرکت کیلئے امریکہ،روس،برطانیہ،سعودی عرب،لبنان، ایران اوربہت سے افریقی ممالک کاسفرکرچکے ۔اب اُن کی عمر 68سال ہے۔
شیخ ابراہیم زکزاکی کے بقول میں 1978ء میں یونیورسٹی میں انجمن اسلامی سورہ نائجیریا کا جنرل سیکرٹری تھا اور ہماری خواہش تھی کہ ملک میں اسلام کا بول بالا ہو اور اسلامی قوانین کا اجراء ہو کیونکہ ہماری حکومت کمیونیسٹ تھی۔ 1980ء میں پہلی مرتبہ اسلامی انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ایران آیا تو میری زندگی اور میری فکر میں واضح تبدیلی آئی۔ 80ء کی دہائی میں، میں نے ایک نئی انجمن اسلامی کی بنیاد رکھی اور انجمن اسلامی سورہ سے الگ ہوگیا اور انہی سالوں سے مسلمانوں کے مابین اختلاف ڈالنے کی پالیسی پر عمل شروع ہوا اور ہم نے اسکی بڑی مزاحمت کی اور اتحاد بین المسلمین کیلئے بھی سرگرم ہوگئے۔
شیخ ابرہیم زاکزاکی کی خدمات :
نمائندہ ولی فقیہ علامہ شیخ ابراہیم یعقوب زکزاکی کی مدبرانہ قیادت میں نائجیریہ کے مسلمانوں نے گیس ،تیل اورمعدنیات سے مالامال ملک سے پسماندگی ،غربت، کرپشن، دہشت گردی،فحاشی اوریہودوسعودکی غلامی سے نجات حاصل کرنے کامصمم ارادہ کیا۔ اُنہوں نے شیخ زکزاکی کی سرپرستی میں نائیجیریہ کے شمالی علاقوں میں فدئیہ پرائمری اورسیکنڈری سکولزکی بنیادرکھی ۔فدیومقامی زبان میں عالم فاضل کوکہتے ہیں جو تین سوسال پہلے سکوٹوکی سلطنت نے اُن کے ایک بزرگ شیخ محمدکوقانونی واسلامی علم کاماہرہونے پریہ لقب عطاکیاتھا۔یہ کاوش رنگ لائی اور شمالی نائیجیریہ میں اب تین سوسے زیادہ تعلیمی ادارے علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں اوراِنہیں اداروں کی برکت سے نائیجیریہ میں اہل تشیع کوتعلیم یافتہ اورمہذب تصورکیاجاتاہے۔ شیخ ابراہیم زاکزاکی کی نگرانی میں ڈیلی المیزان اخبار، اکیڈمک فورم،سسٹرزفورم،وسائل فورم،شہداء فائڈیشن،اِسمامیڈیکل کیئر سنٹرز ، اسلامی تحریک پروڈکشن ، اسلامی تحریک پبلیکیشن ، مدرسہ،شعراء ،گارڈزجیسے ادارے قوم کی شب وروزخدمت میں مصروف بہ عمل ہیں۔
قدس ریلی پر فوج کا حملہ :
شیخ زکزاکی ایک عظیم لیڈر ہیں، جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کیلئے بہت زیادہ قربانیاں دیں۔ اسی وجہ سے اسرائیل اور وہابیت ان کی جان کے درپے ہوگئے اور شیعہ مخالف سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا۔ ہر سال یوم القدس کی ریلی کے موقعہ پر شیخ ابراہیم زکزاکی کی قیادت میں تمام مسلمان شیعہ و سنی مل کر شرکت کرتے ہیں، جو نائجیرین فوج کو کسی طور بھی پسند نہیں تھا۔ 2014ء میں فوج نے قدس ریلی پر دھاوا بول دیا اور 30 سے زائد روزہ دار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ جن میں شیخ زکزاکی کے کل 4 بیٹوں میں سے تین بیٹے بھی شہید ہوئے، لیکن اپنے تین بیٹے قربان کرنے کے باوجود بھی انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔
امام بارگاہ بقیۃ اللہ پہ فوج کا حملہ :
13 دسمبر 2015ء بروز اتوار زاریا شہر میں واقع ان کے گھر کے قریب موجود تاریخی امام بارگاہ بقیۃ اللہ میں مجلس جاری تھی، جس میں ہزاروں لوگ جمع تھے۔ نائجیریا کی فوج نے اسی وقت شیخ ابراہیم زکزاکی کے گھر کا محاصرہ کرکے شیعہ تنظيم تحریک اسلامی کے کارکنوں کا بے دردی کے ساتھ قتل عام کیا۔ شہید ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شیخ ابراہیم زکزاکی کے بیٹے سید علی اور بہو بھی شہید ہونے والے افراد میں شامل ہیں۔ نائجیرین سکیورٹی فورسز کے شیخ زکزاکی کے گھر پر حملے کے نتیجے میں تحریک کے سینیئر رہنما شیخ محمد توری، ڈاکٹر مصطفٰی سعید، ابراہیم عثمان اور جمی گلیما کی شہادت واقع ہوئی ہے۔
درجنوں افراد کو قتل کرنے کے بعد فوج نے شیخ ابراہیم زکزاکی کو گرفتار کرنے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا اور کئی ماہ تک ان کی کوئی خبر نہیں تھی کہ آیا وہ زندہ ہیں یا اپنے خاندان کے دوسرے افراد کی طرح قتل کر دیئے گئے ہیں۔ اس حملے کا جھوٹا جواز یہ بنایا گیا تھا کہ شیعہ، آرمی جنرل کو مارنا چاہتے تھے۔ یہاں یہ بات واضح ہو کہ شیعہ نائجیریا میں بھی انتہائی پرامن ہیں اور آج تک کسی بھی مسلح کارروائی یا جدوجہد میں ملوث نہیں رہے ہیں۔
ظلم کی رات جتنی بھی لمبی ہو
سحر کو طلوع ہونے سے نہیں روک سکتی