۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مباهله

حوزہ / ایام عیدِ مباہلہ کی مناسبت سے مولانا فدا حسین ساجدی نے" اہل سنت کے مشہور مفسرین اور مؤرخین کی نظر میں مباہلہ اور اہل بیت علیہم السلام کی عظمت" کے عنوان پر تحریر لکھی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایام عیدِ مباہلہ کی مناسبت سے مولانا فدا حسین ساجدی نے" اہل سنت کے مشہور مفسرین اور مؤرخین کی نظر میں مباہلہ اور اہل بیت علیہم السلام کی عظمت" کے عنوان پر تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

اشارہ

قرآن مجید اسلام کے اعتقادی اصول اور فرعی احکام کے استنباط کا بنیادی اور مضبوط منبع ہے لہذا اہل بیت علیہم کا مقام، منزلت، عظمت اور ان پاک ہستیوں کی حقانیت کے اثبات کے لئے بھی اس عظیم سر چشمہ سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

لیکن وہ آیات جو اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، علما اسلام کے درمیان ان کی دلالت اور مفاد کے بارے میں کافی اختلافات پائے جاتے ہیں لہذا ہمیں ان آیات سے متعلق نظریات سے آشنائی، ان کا باہمی تقابل اور درست نظریہ کی نشان دہی کرنی چاہئے۔

ان ہی آیات میں سے ایک آیہ مباہلہ ہے اس آیت میں تین ایسے کلمات ہیں جن کےصادیق کی تعیین انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

وہ لفظ "ابنائنا" نسائنا" اور انفسنا" ہے۔

اہل سنت کے نامور مفسرین اور مورخین نے اعتراف کیا ہے کہ ابنائنا" سے مراد امام حسن اور امام حسین علیہما السلام، نسائنا" سے مراد حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا اور انفسنا" سے مراد حضرت علی علیہ السلام کی ذات ہے۔

ہم اس مقالے میں لغت معانی کے بعد آیت کی تشریح اور تمام کلمات کے مصادیق کے بارے میں اہل سنت کے نامور مفسرین، مورخین اور قرآن شناسی کے ماہرین کے نظریے پیش کریں گے اور ان کے اعترافات کی روشنی میں اہل بیت علیہم السلام کی عظمت کو ثابت کرنے کی کوشش کریں۔

مقدمہ

اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ہر نہضت اور مکتب کا موسس، اس مکتب کی بقا اور تعلیمات کے تحفظ کے حوالے سے فکر مند رہتا ہے۔

اسی لئے نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ان اشخاص کے بارے میں بڑی تاکید کی تھی جو آپ کے بعد دین مبین اسلام کی بقا اور ترویج کی عظیم ذمہ داری سنبھال سکتے تھے۔

اور حضور پاک کے بعد ان کی جانشینی کی اہلیت رکھتے تھے۔

لیکن مسلمانوں کی بد قسمتی سے سقیفہ کا واقعہ پیش آنے کی وجہ سے جو لوگ اسلامی خلافت کے لائق تھے ان کو خلافت نہیں دی گئی اور نہ صرف یہ، بلکہ ان کی منزلت اور مقام کو چھپانے اور عام مسلمانوں کو ان سے دور رکھنے کی بہت کوشش کی گئی۔

اسی وجہ سے اہل بیت علیہم السلام نے اپنی اہلیت اور فضیلت، وقت کے حاکموں اور لوگوں کے پاس بیان کرتے تھے تاکہ لوگوں کی ہدایت ہوجائے اور جن میں راہ حق کی طرف آنے کی صلاحیت ہے ان کی ہدایت کے مقدمات فراہم ہوجائے۔

ہم اس مقالے میں اہل بیت علیہم السلام کی عظمت تاریخی اس مظبوط ترین دلیل پر گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے جو روز روشن کی طرح اہل بیت علیہم السلام کی عظمت اور خلافت کی اہلیت پر دلالت کرتی ہے۔

مباہلہ کا لغوی معنی

لفظ مباہلہ لغت میں آزاد کرنا اور قید اور بند سے رہا کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

مباہلہ کا اصلاحی معنی

مباہلہ کلامی اصطلاح میں ایک دوسرے پر نفرین کرنے کو کہتے ہے اس وضاحت کے ساتھ کہ کسی دینی مسئلہ میں جب دو گروہ کے آپس میں اختلاف ہو تو دونوں گروہ ایک جگہ جمع ہو کر اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں اور اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ جھوٹے کو ذلیل اور رسوا کریں۔

لفظ مباہلہ کے لغوی اور اصطلاحی معنی کے آپس کا تعلق یہ ہے کہ جیسے لغت میں آزاد کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور جب ایک شخص جھوٹا دعوا کرتا ہے تو اس کو اللہ اپنی حالت پر چھوڑ دیتا ہے اور اس کا عیب نہیں چھپاتا جس کے نتیجے میں وہ رسوا ہوتا ہے۔

مباہلہ کا واقعہ

شیعہ معروف مفسر علی ابن ابراہیم قمی، امام صادق عليه‏السلام سے روایت کرتے ہیں

جب نجران کے مسیحی ان کے سربراہ اہتم، عاقب اور سید کی سربراہی میں نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں آئے اور جب نماز کا وقت ہوا تو وہ لوگ اپنے طرز پر نماز پڑھنے لگے۔

اصحاب نے آنحضرت(ص) سے عرض کیا: یا رسول اللہ کیا آپ ان کو مسلمانوں کی مسجد میں اس طرح عمل کی اجازت دیتے ہیں؟ آپ ( ص) نے فرمایا: ان کو اپنی حالت پر چھوڑ دو۔

نماز کے بعد مسیحیوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ ہمیں کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں آنحضرت(ص) نے فرمایا: میں تمہیں خدا کی وحدانیت، اپنی رسالت اور عیسی خدا کی مخلوق ہونے پر اعتراف کرنے کی طرف دعوت دیتا ہوں۔

انہوں نے آپ کی بات نہیں مانی اور جدال پر اتر آئے تو یہ آیت نازل ہوئی اور ان کو مباہلہ کی طرف دعوت دی۔

مباہلہ کے میدان میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کون لوگ گئے تھے؟۔

کن لوگوں میں یہ صلاحیت تھی کہ آپ کے ساتھ مباہلہ کے لئے نکلے؟

آیہ مباہلہ کے ذریعہ اہل بیت علیہم السلام کی عظمت ثابت کرنے کے لئے یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

کیونکہ مباہلہ کے میدان میں آپ (ص) کے ساتھی ایسے ہستیاں تھیں جن کو دیکھ کر مسیحیوں کے سردار نے کہا: میں ایسے چہروں کی زیارت کر رہا ہوں اگر یہ لوگ اللہ سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ہٹ جائے گا۔

تاریخی مسلم اور واضح شواہد سے ثابت ہے کہ مباہلہ کے میدان میں آنحضرت(ص) کے ساتھ صرف چار نفر تھے۔

اور یہ بڑی فضیلت انہی کے لئے ثابت ہے۔

تمام شیعہ اور سنی دانشوروں کا اتفاق ہے کہ جو لوگ مباہلہ لئے آپ(ص) کے ساتھ میدان میں نکلے وہ حضرت علی علیہ سلام، حضرت زہرا سلام اللہ علیھا، امام حسن مجتبٰی علیہ السلام اور امام حسین علیہ سلام کی ذات تھی۔

آیہ مباہلہ کے حوالے سے اہل سنت کی دو طرح کی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

۱: تفسیری کتابیں

۲: تاریخی کتابیں

پہلے ہم، اہل سنت کی تاریخی کتابوں سے اس مطلب کی حقیقت کو ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔

۱= اہل سنت کے نامور تاریخ دان ابن اثیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: نجرانی مسیحیوں کے ساتھ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مباہلہ طے پایا تو آپ نے علی علیہ السلام، حضرت زہرا، حسن(ع) اور حسین(ع) کو اپنے ساتھ لے کر آئیں۔

ان ہستیوں کے نورانی چہرے دیکھ کر مسیحیوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور صلح پر راضی ہوئے۔( ابن اثیر الکامل فی التاریخ، ج ۲، ص ۲۰۰)

۲= سنی مؤرخ سعید خرگوشی نے اپنی کتاب شرف النبی میں اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آیہ مباہلہ کے ذیل میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں: ابنائنا سے مراد حسن اور حسین، نسائنا سے مراد حضرت زہرا اور انفسنا سے مراد حضرت علی کرم اللہ وجہ ہے۔( ابو سعید خرگوشی، شرف النبی، ص ۲۶۱)

۳= تیسری روایت سب معروف روایت ہے جو اہل سنت کی اکثر کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔

سب سے پہلے جس نے اس روایت کو نقل کی ہے، احمد ابن حنبل ہے انہوں نے اپنی معروف کتاب المسند میں اس روایت کو لایا ہے اور اہل سنت کی دیگر کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے حاکم نیشاپوری نے المستدرک میں بھی نقل کی ہے۔

ہم اس روایت کو صحیح مسلم سے نقل کرتے ہیں کیونکہ اس میں زیادہ واضح طور پر بیان ہوئی ہے۔

عامر ابن سعد روایت کرتے ہیں کہ میرے والد( سعد ابن ابی وقاص) سے سنا ہے کہ کہتے تھے: ایک دن معاویہ نے مجھے کہا کہ تم ابو تراب علی ابن ابی طالب کو ناسزا کیوں نہیں کہتے ہو۔

سعد ابن ابی وقاص کہتا ہے۔

میں نے معاویہ سے کہا: علی میں تین ایسی فضیلت ہیں جو رسول خدا نے ان کے بارے میں بیان فرمائی ہے۔

اس لئے میں یہ کام نہیں کرسکتا۔

اگر ان میں سے ایک فضیلت میرے اندر ہوتی تو سرخ رنگ والی اونٹنیوں سے میرے لئے زیادہ پسندیدہ تھی۔

ان میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ جب آیہ مباہلہ نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ میرے اہل بیت یہی لوگ ہیں۔

( مسلم، صحیح مسلم، ص ۱۰۰۶ حدیث نمبر ۶۲۲۰)

اہل سنت کی تفسیری کتابوں میں بھی ایسے روایات پڑھنے کو ملتی ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مباہلہ کے لئے صرف پنجتن پاک کو لے گئے تھے۔

۱= اہل سنت کے نامور مفسر جلاالدین سیوطی، اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: جب مسیحیوں کے ساتھ مباہلہ پر اتفاق ہوا تو آنحضرت (ص) ان کی طرف نکلے جبکہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑے تھے اور آپکی دخت گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیھا اور حسن اور حسین آپ کے ساتھ تھے۔

( سیوطی، درالمنثور، ج ۲ ص ۳۹)

۲= ابن اثیر نے اپنی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ جب نجران کے مسیحیوں کے سردار عاقب اور طیب آپ کی خدمت میں آئے تو آپ نے ان کے ساتھ دو دن بعد مباہلہ کرنا مقرر کیا جب وہ دن آیا تو مباہلہ کے لئے آپ (ص) کے ساتھ حضرت علی، فاطمہ الزہرا، حسن اور حسین حاضر تھے۔( تفسیر ابن اثیر ج ۲ ص ۴۷)

۳= طبری نے اپنی تفسیر میں علیاء ابن احمر یشکر سے نقل کرتے ہیں انہوں نے کہا: جب آیہ مباہلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ(ص) حضرت علی، حضرت فاطمہ اور اپنے فرزند حسن اور حسین کو اپنے ساتھ لے گئے اور یہودیوں سے کہا کہ ان کے ساتھ مباہلہ کریں۔( طبری، جامع البیان، ج ۳،ص ۲۱۳)

( یہاں یہود کا لفظ آیا ہے جبکہ مشہور کہ آپ کو مسیحیوں کے ساتھ مباہلہ کا حکم ہوا تھا)

۴= اہل سنت کے مشہور مفسر بیضاوی اس حوالے لکھتے ہیں جب نصارا آپ کے ساتھ مباہلہ کے لئے میدان میں آئے تو دیکھا کہ آپ نے حسین علیہ السلام کو اپنے کندھے پر اٹھائے اور حسن علیہ السلام کا ہاتھ پکڑے تھے اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا آپ کے پیچھے اور حضرت علی علیہ سلام ان پیچھے چل رہے تھے اور آنحضرت ان سے فرمارہے تھے کہ جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا۔( بیضاوی، تفسیر بیضاوی، ج ۲ ص ۴۷)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .