حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام حامد کاشانی نے حرم حضرت معصومہ (س) میں ایک خطاب کے دوران کہا: بعض لوگ امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان صلح کو امام حسن علیہ السلام کے دھوکہ کھانے سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے تاریخی واقعات کو تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: رسول خدا کے زمانے میں ایسی تحریکیں چلیں جن میں رسول خداؐ کو تمام معاملات میں سب سے آگے دیکھا گیا اور اس تحریک کے مرکزی رہنما حضرت علی علیہ السلام کا وجود مبارک تھا لیکن اس کے مقابل جو تحریکیں تھیں اس کے افراد رسول خداؐ کو غلط ٹھہراتے تھے۔
حوزہ علمیہ کے پروفیسر نے تاکید کی: تاریخی اور روایتی کتابوں میں معاویہ کا تزکیہ موجودہ سوچ کا نتیجہ ہے کہ جس نے پیغمبر خدا کو خطا پر سمجھا اور معاویہ پر رسول خداؐکی بددعا اور نفرین کو معاویہ کے خدا سے رجوع کرنے کا سبب سمجھا۔
انہوں نے مزید کہا: "بدقسمتی سے، انحرافی افکار نے رسول خدا ؐ کو حق و باطل کی کسوٹی نہیں سمجھا،اور اسلامی معاشرے میں جعلی معیارات متعارف کرا دیئے۔
حرم معصومہ قم سلام اللہ علیہا کے مقرر نے مزید کہا: قرآن کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی تفسیر، تشریحات اور تصریحات سے خالی رکھنا، معاشرہ کو ابہام کی طرف لے جانے کا باعث بنتا ہے، جو کہ رسول اللہؐ کی وفات بعد آنے والے حکمرانوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: پیغمبر خداؐ کی جانب غیر منصفانہ اور غیر معقول روایتیں منسوب کرنا، آیات قرآنی سے رسول خدا کی تفسیر کو ہٹانا، پیغمبر اکرم کی سیرت کے مانند خلفائے راشدین کی سیرت کو حجت ماننا، اور "ثقلین" کو نہ ماننا یہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی وفات کے بعد حکمرانوں کے اقدامات ہیں جو 12 سال میں بتدریج انجام پائے۔
انہوں نے بیان کیا: واقعہ کربلا میں دشمنوں نے جو اپنی تلواریں نیام سے نکالیں تھیں یہ وہی تلواریں تھیں جو سقیفہ کے دن نکلی تھیں اور واقعہ عاشورا کی بنیاد درحقیقت سقیفہ کے دن رکھی گئی۔